بلوچستان کے مشرقی ضلع نصیرآباد میں پولیس کی گاڑی پر بم حملے میں ایک اعلیٰ افسر اور تین محافظین سمیت 10 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ شدید زخمیوں کو صوبہ سندھ کے علاقے لاڑکانہ کے اسپتال میں منتقل کر دیا گیا ہے۔
ایس ایس پی سید جاوید اقبال غرشین کے مطابق، ضلع نصیرآباد کے ایک ڈی ایس پی عنایت اللہ بگٹی اپنے ضلع کے ایک قصبے منجھو شوریٰ میں معمول کی پٹرولنگ پر تھے۔
جب پولیس گاڑی بازار سے گزر رہی تھی، اُسی دوران سڑک کنارے کھڑی ایک سائیکل میں نصب بارودی مواد میں ریموٹ کنٹرول سے زوردار دھماکہ کیا گیا، جس کی زد میں گاڑی میں سوار ڈی ایس پی، اُس کے تین محافظ اور چھ راہ گیر آئے۔
تمام زخمیوں کو فوری طور مقامی اسپتال منتقل کر دیا گیا۔
دھماکے میں زخمی ہونے والے ڈی ایس پی عنایت اللہ بگٹی کی حالت خطرے سے باہر بتائی گئی ہے، جبکہ اُن کے تین محافظین کو تشویشناک حالت کے باعث صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ منتقل کردیا گیا۔
دھماکے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ یا تنظیم نے قبول نہیں کی۔ تاہم، اس سے پہلے بلوچستان کے مشرقی اضلاع میں ہونے والے بم دھماکوں اور سیکورٹی فورسز پر حملوں کی ذمہ داری کالعدم بلوچ عسکری تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔
بلوچستان کے مشرقی اضلاع سبی جعفرآباد، نصیرآباد جھل مگسی میں کافی عرصے سے کوئی بڑا دھماکہ یا حملہ نہیں ہوا۔
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں ریاست کے خلاف برسر پیکار عناصر حکومت کی طرف سے پرامن بلوچستان پالیسی کے تحت اپنی سرگرمیاں ترک کر کے ریاست کی عملداری تسلیم کر چکے ہیں۔ تاہم، پولیس افسر پر یہ تازہ حملہ حکام کےلئے باعث تشویش بن گیا ہے۔
بلوچستان کے مختلف اضلاع میں پولیس، فرنٹیر کور اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں کو ٹارگٹ کرنے اور ان پر خودکش حملے ہوتے رہے ہیں جس میں اب تک پولیس کے لگ بھگ ایک درجن اعلیٰ افسران اور درجنوں اہلکاران جان کی بازی ہار چکے ہیں۔