رسائی کے لنکس

کوئٹہ: ہجوم کے ہاتھوں نوجوان کی ہلاکت کے بعد حالات کشیدہ، انٹرنیٹ سروس معطل


(فائل فوٹو)
(فائل فوٹو)

کوئٹہ کے علاقے ہزارہ ٹاؤن میں پشتون نوجوان کی مبینہ طور پر مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد حالات بدستور کشیدہ ہیں۔ کوئٹہ میں موبائل ڈیٹا اور انٹرنیٹ سروس مسلسل دوسرے روز بھی معطل رہی۔

حکام کا کہنا ہے کہ ہزارہ ٹاؤن میں ہفتے کو پیش آنے والے واقعے کے بعد صورتِ حال اب بھی کشیدہ ہے۔ مذکورہ واقعے میں ایک حجام کی دکان میں بیٹھے تین پشتون نوجوانوں پر پہلے گھونسوں اور لاتوں سے تشدد کیا گیا بعد ازاں ان کو چاقو سے شدید زخمی کر دیا گیا اور ان کے کپڑے بھی پھاڑ دیے گئے۔

پولیس نے تینوں زخمی نوجوانوں کو سول اسپتال منتقل کا تھا۔ جہاں ایک نوجوان بلال نورزئی زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ تاہم دیگر زخمی نوجوان اب بھی زیر علاج ہیں۔

اطلاعات کے مطابق تشدد کا نشانہ بننے والے نوجوانوں پر خواتین کی ویڈیوز بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

حکام کا کہنا ہے کہ واقعے کے بعد پشتون اور ہزارہ برادری کے درمیان تناؤ بڑھ گیا ہے۔

کوئٹہ میں ٹیلی کمیونیکشن حکام کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ اس واقعے کے بعد سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹس کر رہے تھے۔ لہذٰا انٹرنیٹ سروس بند کی گئی ہے۔

پیر کو سول اسپتال میں ڈیوٹی پر مامور ایک ہزارہ پولیس اہلکار پر بعض نا معلوم افراد نے خنجروں کے وار کر کے شدید زخمی کر دیا تھا۔

واقعے کے بعد ہزارہ برادری کے افراد نے ہزارہ کے ساتھ گزرنے والے مغربی بائی پاس کو ٹریفک کے لیے بند کر دیا تھا۔ تاہم بعد میں فرنٹئیر کور (ایف سی) اور پولیس نے لاٹھی چارج اور آنسو گیس استعال کر کے ہزارہ مظاہرین کو منتشر کردیا تھا۔

ڈی آئی جی کو ئٹہ عبدالرزاق چیمہ کے بقول مذکورہ اہلکار کو بعد میں سی ایم ایچ اسپتال میں داخل کر دیا گیا جس کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

عبدالرزاق چیمہ نے کہا کہ ہزارہ ٹاﺅن کے واقعے کے بعد شہر کی ایک برادری کے لوگوں میں کافی اشتعال پایا جاتا ہے۔

صوبائی حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ سروس بند کرنے کا فیصلہ صوبائی وزارتِ داخلہ یا کسی محکمے کی درخواست پر نہیں بلکہ پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی نے خود کیا۔

اُن کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی اے سے رابطہ کر کے سروس جلد بحال کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

پولیس نے مذکورہ واقعے کے بعد حمام کے مالک اور 11 افراد کو حراست میں لے لیا ہے۔ واقعے کی تحقیقات صوبائی حکومت کی جانب سے تشکیل دی گئی ایک اعلٰی سطحی پولیس کمیٹی کر رہی ہے۔

واقعے کے بعد پاکستان میں انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے مذمت کرتے ہوئے واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

بلوچستان کے وزیر اعلٰی جام کمال خان کا کہنا تھا کہ واقعے کی مکمل اور شفاف تحقیقات کی جائیں گی۔

XS
SM
MD
LG