مشرقِ وسطیٰ امن عمل میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے چار فریقی گروپ نے فلسطین اور اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ براہِ راست مذاکرات کا سلسلہ فوراً بحال کریں۔
اتوار کو جرمنی کے شہر میونخ میں ہونے والے اجلاس کے بعد جاری بیان میں گزشتہ سال جنگ سے تباہ ہونے والے فلسطینی علاقے غزہ میں تعمیرِ نو کی سرگرمیوں کی سست روی پر بھی تشویش ظاہر کی گئی ہے۔
امریکہ، یورپی یونین، اقوامِ متحدہ اور روس پر مشتمل گروپ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جتنا جلد ممکن ہوسکے فریقین کو مذاکرات کا سلسلہ بحال کرنا چاہیے۔
اسرائیل اور فلسطین کے درمیان براہِ راست مذاکرات کا سلسلہ گزشتہ سال اپریل میں معطل ہوگیا تھا جو تاحال بحال نہیں ہوسکا ہے۔
مذاکرات کے تعطل کی بڑی وجہ اسرائیل کی جانب سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں نئی یہودی بستیوں کی تعمیر جاری رکھنا تھا جسے صدر محمود عباس کی فلسطینی حکومت اور مغربی ممالک مسترد کرتے آئے ہیں۔
اسرائیل صدر محمود عباس کی جانب سے غزہ کی حکمران فلسطینی مزاحمتی جماعت 'حماس' کو فلسطینی حکومت میں شامل کرنے کی کوششوں کو جواز بنا کر مذاکرات کی بحالی سے انکار کرتا آیا ہے۔
اتوار کو میونخ میں ہونے والے ثالثی گروپ کے اجلاس میں امریکہ کے وزیرِ خارجہ جان کیری، ان کے روسی ہم منصب سرجئی لاوروف، یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فیڈیریکا موغیرینی اور اقوامِ متحدہ کے نائب سربراہ جان ایلے سن شریک ہوئے۔
اجلاس کے بعد جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین کو براہِ راست مذاکرات میں فلسطینیوں کی علیحدہ ریاست کی خواہش اور اسرائیل کے سکیورٹی خدشات کا احترام پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔
بیان میں چار فریقی گروپ نے غزہ کی "مشکل صورتِ حال پر گہری تشویش" ظاہر کرتے ہوئے وہاں جاری تعمیرِ نو کی سرگرمیوں اور خطے کے استحکام کے لیے فلسطینیوں کو بنیادی ضرورتوں کی فراہمی تیز کرنے پر زور دیا ہے۔
بیان میں گزشتہ سال اکتوبر میں قاہرہ میں ہونے والی 'ڈونر کانفرنس' میں غزہ کی تعمیرِ نو کے لیے پانچ ارب ڈالر کی امداد کے وعدے کرنے والے ملکوں اور اداروں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنے وعدوں کا پاس کرتے ہوئے امداد کی رقم اقوامِ متحدہ کے اداروں کو فراہم کریں۔
گزشتہ سال غزہ میں ہونے والی اس جنگ اور حماس کی اسرائیل پر جوابی حملوں میں 2100 فلسطینی اور 73 اسرائیلی ہلاک ہوئے تھے۔