اسرائیل کا کہنا ہے کہ فلسطین کی جانب سے اقوام ِمتحدہ کی سلامتی کونسل میں اسرائیلی انخلاٴ سے متعلق قرارداد پیش کیے جانے سے اس تنازعے کا کوئی ممکنہ حل نہیں نکل سکے گا، بلکہ فلسطین کی جانب سے یہ قرارداد پیش کرنے سے اس تنازعے کے حل میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ دونوں فریقوں کو تنازعے کے حل کے لیے مذاکرات کے ذریعے تگ و دو کرنی چاہیئے۔
فلسطین کی جانب سے بدھ کے روز اقوام ِمتحدہ کی سلامتی کونسل میں رائے شماری کے لیے قرارداد کا ایک مسودہ پیش کیا گیا ہے، جس میں مقبوضہ علاقوں سے اسرائیل کے انخلاٴ کے بارے میں حتمی تاریخ طے کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
اسرائیلی وزیر ِخارجہ کے ترجمان، پال ہرچسن نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ فلسطین کی جانب سے اس قرارداد کے پیش کیے جانے کے بعد یہ واضح ہے کہ وہ مذاکرات سے کترا رہے ہیں اور تنازعے کو ہوا دے رہے ہیں۔
پال ہرچسن کے الفاظ: ’یہ تنازعہ صرف مذاکرات کی میز پر ہی حل ہو سکتا ہے۔ عالمی برادری کو چاہیئے کہ وہ فلسطین کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے اور دونوں فریقوں کو آپس میں بات کرنے اور اس تنازعے کا حل نکالنے کی صلاح دے‘۔
فلسطین کی جانب سے پیش کردہ قرارداد کی منظوری کے لیے سلامتی کونسل کے 15 میں سے 9 ارکان کی منظوری درکار ہوگی۔
دوسری طرف، سلامتی کونسل میں ’ویٹو‘ کا حق رکھنے والے پانچ ممالک میں سے کوئی بھی اس قرارداد کو ویٹو کر سکتا ہے۔ سلامتی کونسل میں برطانیہ، فرانس، چین، روس اور امریکہ ویٹو کا حق رکھتے ہیں۔
اس بات کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ امریکہ فلسطین کی جانب سے پیش کردہ قرارداد کو ویٹو کر سکتا ہے۔