اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں فلسطین کی جانب سے پیش کی جانے والی اسرائیل مخالف قرارداد ناکام ہوگئی ہے۔
مجوزہ قرارداد میں فلسطینی حکام نے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی کامیابی کے لیے ایک سال کی ڈیڈلائن مقرر کرنے اور 2017ء تک مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔
منگل کی شام سلامتی کونسل میں قرارداد پر بحث کے بعد ہونے والی رائے شماری کے دوران 15 رکنی کونسل کے آٹھ ارکان نے اس کے حق میں جب کہ امریکہ اور آسٹریلیا نے قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ کونسل کے پانچ ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
پندرہ رکنی سلامتی کونسل میں قرارداد کو منظوری کے لیے کم از کم نو ووٹ درکار تھے۔
قرارداد کے حق میں ووٹ دینے والوں میں 'ویٹو' کا اختیار رکھنے والی تین دیگر عالمی طاقتیں – فرانس، روس اور چین بھی شامل تھے جب کہ چوتھی 'ویٹو' پاور برطانیہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔
اقوام ِمتحدہ کے رکن تمام 22 عرب ملکوں نے پیر کو قرارداد کی توثیق کی تھی جس کے بعد سلامتی کونسل کے واحد عرب رکن ملک اردن نے فلسطین کی نمائندگی کرتے ہوئے منگل کو قرارداد کا مسودہ منظوری کے لیے کونسل کے سامنے پیش کیا تھا۔
امریکہ اور برطانیہ پہلے ہی فلسطینی قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے اس طرح کی کوششوں کو مشرقِ وسطیٰ کے امن عمل کے لیے نقصان دہ قرار دے چکے تھے جس کے باعث امکان ظاہر کیا جارہا تھا کہ یہ دونوں یا ان میں سے کوئی ایک ملک قرارداد کو 'ویٹو' کردے گا۔
قرارداد میں فلسطینی حکام نے مطالبہ کیا تھا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات 1967ء سے قبل کی سرحدوں کی بنیاد پر کیے جائیں۔
خیال رہے کہ 1967ء کی جنگ کے دوران اسرائیل نے مغربی کنارے، مشرقی یروشلم اور غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلیا تھا جو اول الذکر دونوں علاقوں پر تاحال برقرار ہے۔
قرارداد میں اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے 12 مہینوں کی ڈیڈلائن مقرر کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی جب کہ اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ 2017ء تک تمام فلسطینی مقبوضات خالی کردے۔