رسائی کے لنکس

افغان تنازع میں قطر کا کردار؛ مستقبل میں کیا کر سکتا ہے؟


طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر کی قطری وزیرِ خارجہ محمد بن عبدالرحمن الثانی سے ملاقات۔
طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر کی قطری وزیرِ خارجہ محمد بن عبدالرحمن الثانی سے ملاقات۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی میزبانی ہو یا دیگر علاقائی معاملات عرب ملک قطر گزشتہ کئی برسوں سے عالمی سیاسی منظر نامے پر متحرک ہے۔

خطے کے بعض ممالک کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود گزشتہ برس فروری میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کی راہ ہموار کرنے والے اس ملک کو افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد اب بھی اہم سمجھا جا رہا ہے۔

طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد کابل سے نکلنے کے خواہش مند افغان پناہ گزینوں اور دیگر افراد کو لے کر بیشتر امریکی طیاروں کی پہلی منزل قطر ہی ہے جب کہ قطر میں ہی طالبان کے سیاسی دفتر میں ان دنوں چہل پہل نظر آتی ہے اور طالبان کے نائب امیر ملا عبدالغنی برادر قطر کے ہی ایک جہاز میں سوار ہو کر افغانستان پہنچ چکے ہیں۔

آخر قطر افغان تنازع میں سہولت کار کیوں بنا اور طالبان کو سیاسی دفتر قائم کرنے کی اجازت سے لے کر اب تک قطر نے امریکہ اور طالبان کو قریب لانے میں کیا کردار ادا کیا؟ آئیے اس کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں۔

عالمی تنازعات میں ثالثی مگر عسکری تنظیموں کی حمایت کے الزامات

عالمی تنازعات کے حل کے لیے کئی مواقع پر قطر کا کردار بطور ثالث رہا ہے۔ تیل کے ذخائر سے مالا مال اس ملک پر یہ الزامات بھی لگتے رہے ہیں کہ وہ عسکری تحریکوں کی حمایت کرتا ہے اور اس کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے۔ تاہم دوحہ نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کی ہے۔

یمن، لبنان، مغربی سوڈان کے علاقے دارفور کے تنازعات ہوں یا فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس اور الفتح کے درمیان کشیدگی کا خاتمہ۔ ماہرین کے مطابق قطر ہر تنازع کے حل کے لیے بھرپور سفارتی کوششیں کرتا رہا ہے۔

بیس سالہ افغان جنگ کے خاتمے میں بھی قطری حکومت نے ایک ایسے پل کا کردار ادا کیا جس کے ایک طرف افغان طالبان اور دوسری طرف امریکی حکومت تھی۔

قطری حکومت کی جانب سے فریقین کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے طالبان کو 2013 میں دوحہ میں سیاسی دفتر قائم کرنے کی دعوت دینے سے شروع ہونے والا سفر بدستور جاری ہے۔

گو کہ قطر ان ملکوں میں شامل نہیں تھا جنہوں نے 1996 میں طالبان کی افغانستان پر حکومت کو تسلیم کیا تھا البتہ اس کے طالبان کے ساتھ مراسم تھے۔

امریکہ نے 2001 میں طالبان کی حکومت کا خاتمہ کیا تو اس کے بعد بظاہر ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کا سلسلہ شروع ہوا۔ مبصرین کہتے ہیں کہ طویل ہوتی اس جنگ کو سمیٹنے کے لیے قطری حکومت نے سفارتی سطح پر اہم کاوشیں کیں جس کے نتیجے میں امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدہ طے پایا اور یہ کوششیں اب بھی جاری ہیں۔

قطر ایئرویز کے طیارے کے ذریعے امریکی سفارتی عملے کو کابل سے دوحہ میں واقع ایئربیس العدید منتقل کیا جا رہا ہے۔
قطر ایئرویز کے طیارے کے ذریعے امریکی سفارتی عملے کو کابل سے دوحہ میں واقع ایئربیس العدید منتقل کیا جا رہا ہے۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد افغان شہریوں کی جائے پناہ

پندرہ اگست کو کابل پر طالبان کے قبضے کے ایک روز بعد امریکہ کے فوجی جہاز سی 17 کے ذریعے سیکڑوں افغان شہری قطر کی العدید ایئر بیس پر پہنچائے گئے تھے اور اب قطر کی سرکاری ایئر لائن کے ذریعے کابل سے غیر ملکیوں کے انخلا کا عمل جاری ہے۔

قطر مسلسل اس بات پر زور دے رہا ہے کہ افغانستان کی موجودہ صورتِ حال میں جنم لینے والے انسانی بحران پر قابو پایا جائے۔ اس سلسلے میں قطری وزیرِ خارجہ محمد بن عبدالرحمن الثانی عالمی رہنماؤں سے رابطے بھی کر رہے ہیں۔

کابل پر طالبان کے قبضے کے دو روز بعد ملا عبدالغنی برادر نے افغانستان روانہ ہونے سے قبل قطری وزیرِ خارجہ سے الوداعی ملاقات کی۔ دونوں رہنماؤں نے سیاسی تصفیے، پرامن انتقالِ اقتدار اور افغانستان میں قیامِ امن پر گفتگو کی۔

افغان تنازع کے لیے گزشتہ آٹھ برسوں کے دوران قطر نے متعدد بار فریقین کی میزبانی کی اور مذاکرات میں قطری وزیرِ خارجہ سمیت دیگر اہم رہنماؤں نے حصہ لیا۔

کیا قطر طالبان حکومت کو تسلیم کرے گا؟

لیکن مبصرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان فروری 2020 میں طے پانے والے امن معاہدے کے برعکس طالبان افغانستان پر قابض ہو چکے ہیں۔ ایسے میں امن معاہدے کا مستقبل کیا ہو گا اور اس کے سہولت کار قطر کو معاہدے کی شقوں پر عمل درآمد کرانے کے لیے مزید کیا کردار ادا کرنا ہو گا۔

مشرقِ وسطیٰ کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار اینڈریس کریگ کہتے ہیں طالبان سے مذاکرات کے وقت امریکہ نے قطر پر دباؤ ڈالا تھا کہ وہ گوانتاناموبے جیل سے رہا ہونے والے قیدیوں کو اپنے ہاں ٹھیرائے تاکہ طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ آگے بڑھایا جائے۔ اور اب طالبان کابل پر قبضہ کر کے نئی حکومت بنانے کی تیاریاں کر رہے ہیں ایسے میں کریگ کہتے ہیں کہ اگر امریکہ نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کیا تو قطر کے لیے بھی طالبان کو تسلیم کرنا مشکل ہو گا۔

ان کے بقول قطر افغان تنازع میں بطور ثالث اپنی حیثیت خطرے میں نہیں ڈالے گا اور امریکی مؤقف کو تسلیم کرے گا۔

یاد رہے کہ قطر خلیجِ فارس کے کنارے موجود چھوٹا سا ایک ملک ہے جس کی آبادی لگ بھگ 30 لاکھ ہے۔ قطر کے امریکہ کے ساتھ بھی دیرینہ تعلقات ہیں اور اس نے واشنگٹن کو دوحہ میں فوجی اڈا بھی دے رکھا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد قطر کا کردار ابھی ختم نہیں ہوا۔ کیوں کہ بطور ثالث قطر کو افغانستان میں قیامِ امن اور طالبان اور امریکہ کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے کئی نکات پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ہے اور اس مقصد کے لیے اس کے پاس امن معاہدہ بطور دلیل موجود ہے جس میں طالبان نے کئی وعدے کر رکھے ہیں۔

ان وعدوں میں یہ بھی شامل ہے کہ طالبان عالمی دہشت گرد تنظیموں سے روابط نہیں رکھیں گے اور افغان سرزمین امریکہ اور اس کے اتحادیوں سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

قطر کے بائیکاٹ کو ایک سال مکمل
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:42 0:00

امریکی تھنک ٹینک فارن پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ سینئر تجزیہ کار مائیکل اسٹیفن کہتے ہیں کہ قطر کے کچھ اپنے مسائل ہیں جن میں ایک یہ ہے کہ وہ افغانستان کو پوری طرح سے نہیں سمجھتا۔

انہوں نے خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ قطر بین الثقافتی سفارت کاری کا مرکز بننا چاہتا ہے اور یہ وہی تصور ہے جو وہ عالمی سطح پر پیش کرنے کی مسلسل کوشش کر رہا ہے۔

جون 2017 میں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، مصر، بحرین، یمن اور لیبیا نے قطر پر یہ الزام عائد کرتے ہوئے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے کہ وہ اخوان المسلمون کے علاوہ داعش اور دیگر شدت پسند تنظیموں کی حمایت کرتا ہے۔ تاہم قطر نے ان الزامات کو بے بنیاد اور سفارتی تعلقات کے منقطع کرنے کو بلاجواز قرار دیا تھا۔

چھ عرب ملکوں سے سفارتی تعلقات کے منقطع ہونے سے قطر کو مشکلات کا سامنا رہا جس کا براہِ راست اثر دوحہ میں جاری افغان امن مذاکرات پر بھی پڑا تھا۔

سفارتی تعلقات منقطع ہونے پر قطری وزیرِ خارجہ کا کہنا تھا کہ "ہم امن کا پلیٹ فارم ہیں اور اپنی آزاد خارجہ پالیسی سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔"

'قطر افغان تنازع کی بحث کا موضوع رہے گا'

برطانوی تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ ریسرچ سے وابستہ رکن ڈاکٹر توبیاس بورک کہتے ہیں کہ قطر طویل عرصے سے افغان تنازع کے حل میں زبردست سفارت کاری کرتا رہا ہے اور ایسا اس وجہ سے ممکن ہوا ہے کیوں کہ اس کے تمام فریقین کے ساتھ اچھے روابط ہیں۔

ان کے بقول وہ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ قطر افغان تنازع کی بحث کا موضوع رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ طالبان نے اب تک کئی مثبت پیغامات دیے ہیں اور یہ پیغامات اس وقت تک آتے رہیں گے جب تک وہ افغانستان پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کر لیتے۔ انہوں نے اس خدشے کا بھی اظہار کیا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد طالبان مخالفین کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کریں گے۔

البتہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے 17 اگست کو اپنی پہلی پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ کسی دشمن سے انتقام نہیں لیں گے اور سرکاری اہلکاروں کے لیے عام معافی ہو گی۔

بطور ثالث قطر نے کیا حاصل کیا؟

قطر کو عالمی سطح پر ایک مرتبہ پھر اس وقت سراہا گیا جب امریکہ اور طالبان کے درمیان 29 فروری 2020 کو دوحہ میں امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔

اس معاہدے سے قبل کئی مواقع پر قطری وزیرِ خارجہ اور دیگر اعلیٰ حکام نے فریقین کو کسی سمجھوتے پر قائل کرنے کے لیے بات چیت کے کئی دور منعقد کیے لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ بین الافغان مذاکرات امن معاہدہ کا اہم حصہ تھے جو شروع سے ہی غیر یقینی کا شکار تھے اور اس پر کوئی کام نہیں ہوا۔

برطانیہ کے تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ (روسی) کے مطابق قطر کے پڑوس میں کئی بااثر اور امیر ملک ہیں جن سے اس کے تعلق کچھ زیادہ خوشگوار نہیں۔ اس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ دنیا کی توجہ کا محور بنا رہے اور اس مقصد کے لیے وہ عالمی تنازعات کے حل کے لیے ثالث کا کردار ادا کرتا ہے۔

روسی کے مطابق قطر کی افغانستان سے متعلق حکمتِ عملی کا یہ مظہر ہے کہ وہ خود کو مغرب اور مسلم ملکوں کے درمیان کلیدی مذاکرات کار کے طور پر پیش کرتا ہے جن کے ساتھ مغرب کو نمٹنے میں دشواری پیش آتی ہے۔

قطر کا یہی کردار لیبیا کے تنازع میں بھی دیکھا جا سکتا ہے جہاں اس نے لیبیا کی نامور مذہبی شخصیت علی السلابی کے ساتھ تعلقات قائم کیے اور وہاں ابھرتی ہوئی اسلامی حکومت اور مغرب کے درمیان کشیدگی کو ختم کرانے میں کردار ادا کیا۔

XS
SM
MD
LG