روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا ہے کہ ان کے ملک کو سابق سوویت ریاستوں کی جانب سے مغرب کے ساتھ قریبی تجارتی تعلقات قائم کرنے کی کوششوں پر اعتراض نہیں ہے۔
لیکن انہوں نے کہا ہے کہ ان ریاستوں کو اس طرح کے اقدامات سے روسی معیشت کے لیے پیدا ہونے والے خطرات کو بھی پیشِ نظر رکھنا ہوگا۔
ہفتے کو سابق سوویت ریاستوں کے 11 رکنی اتحاد 'کامن ویلتھ آف انڈی پینڈنٹ اسٹیٹس' کے سربراہی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے روسی صدر نے کہا کہ روس خود بھی یورپی یونین کے ساتھ قریبی تعلقات کا خواہاں ہے اور اس نے یورپ کے ساتھ تجارتی تعلقات کے قیام کی کبھی مخالفت نہیں کی۔
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ اگر خطے کا کوئی ملک کسی دوسری تجارتی تنظیم کا رکن بننے کا فیصلہ کرے تویہ ضروری ہے کہ وہ روسی معیشت کے لیے پیدا ہونے والے خطرات کا ادراک کرتے ہوئے سوچ سمجھ کر اور دوسروں کو اعتماد میں لے کر ایسا قدم اٹھائے۔
روسی صدر نے کہا کہ یورپی شراکت داروں کے ساتھ تجارتی معاہدے کرتے وقت سابق سوویت ریاستوں کو یہ بات پیشِ نظر رکھنی چاہیے کہ اس طرح کے تعلقات کے نتیجے میں ان کی مقامی منڈیوں میں یورپی مصنوعات کا سیلاب آجائے گا جس سے، ان کے بقول، قومی مفادات متاثر ہوسکتے ہیں۔
لیکن صدر پیوٹن نے وضاحت کی کہ اگر اس طرح کے معاہدے سوچ سمجھ کر اور "مناسب وقت" پر کیے جائیں تو یقیناً ایسے مسائل کھڑے نہیں ہوں گے۔
بیلاروس کے دارالحکومت مِنسک میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے دوران روس، بیلاروس، کرغزستان اور تاجکستان 1990ء میں قائم کی جانے والی تنظیم 'یوریشین اکنامک کمیونٹی' کی تحلیل کا باقاعدہ اعلان بھی کریں گے۔
یہ اقدام "یوریشین اکنامک یونین' کے قیام کا پیش خیمہ ہے جو سابق سوویت ریاستوں کی سب سے بڑی مشترکہ منڈی ہوگی اور جنوری 2015ء میں فعال ہوجائےگی۔
صدر پیوٹن کے بارے میں مغربی ملکوں میں عام تاثر ہے کہ وہ سوویت یونین کی دوبارہ بحالی کے خواہش مند ہیں اور سابق سوویت ریاستوں کے یورپ کے ساتھ قریبی تعلقات کے سخت مخالف ہیں۔
یوکرین کے حالیہ بحران میں بھی روسی صدر پر یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ وہ کِیو حکومت کو یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدے سے روکنے کے لیے یوکرین کے مشرقی علاقوں میں علیحدگی پسندی کی تحریک کو ہوا دے رہے ہیں۔
تاہم روسی حکومت یوکرین میں مداخلت کے الزامات کو رد کرتی ہے لیکن اس کا اصرار رہا ہے کہ یوکرین اپنے مشرقی علاقوں میں آباد روسی بولنے والے افراد کے تحفظات دور کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے۔