روس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے خبردار کیا ہے کہ مغربی ملکوں کو ماسکو کے معاملات میں مداخلت اور اس کے ساتھ دھمکیوں کی زبان میں بات کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔
جمعے کو سینٹ پیٹرس برگ میں 'اکنامک فورم' کی سالانہ تقریب سے خطاب میں روسی صدر نے کہا کہ ہمیں یہ باور کرایا جارہا ہے کہ امریکہ ہمارے معاملات کو ہم سے بہتر جانتا اور سمجھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ روس اپنے مفادات اور اپنی ضروریات کا تعین خود کرے گا اور کسی کو بھی روس کے ساتھ دھمکی آمیز زبان میں بات کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اپنی تقریر کے دوران روسی صدر نے کئی بین الاقوامی معاملات اور تنازعات اور ان سے متعلق اپنی حکومت کی پالیسیوں کی بھی وضاحت کی۔
انہوں نے شام کے صدر بشار الاسد کے لیے روسی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ شام میں جاری خانہ جنگی کے خاتمے کے لیے وہاں بین الاقوامی مداخلت کی مخالفت کرتے آئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماسکو حکومت ان خدشات کی بنیاد پر صدر بشار الاسد کی حمایت کرتی ہے کہ اگر انہیں زبردستی اقتدار سے الگ کرنے کی کوشش ہوئی تو اس کے نتیجے میں شام مزید عدم استحکام اور تشدد کا شکار ہوجائے گا۔
صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ روس کو تشویش ہے کہ شام کا بحران اوروہاں جاری لڑائی شدید ہوسکتی ہے اور اگر ایسا ہوا تو شام دوسرا لیبیا بن جائے گا۔
ایران کے جوہری تنازع پر جاری مذاکرات کے بارے میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جلد معاہدہ طے پاجائے گا۔
اپنے خطاب میں روسی صدر نے یوکرین میں جاری بحران کی ذمہ داری امریکہ اور مغربی ملکوں پر عائد کرتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ تنازع کے حل کے لیے کیو حکومت پر دباؤ ڈالیں۔
صدر پیوٹن کا کہنا تھا کہ ان کا ملک مشرقی یوکرین میں سرگرم باغیوں پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے پر راضی ہے تاکہ تنازع کا حل اور اس امن معاہدے پر مکمل عمل درآمد یقینی بنایا جاسکے جس پر فریقین نے رواں سال فروری میں اتفاق کیا تھا۔
اپنی تقریر میں روسی صدر نے اس یقین کا اظہار کیا کہ مغربی ملکوں کے ساتھ حالیہ کشیدگی کے باوجود روس اور مغرب کے درمیان تعاون کا سلسلہ جاری رہے گا۔