پاکستان میں آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں حکومت نے ایک ’موبائل فون ایپ‘ متعارف کروائی ہے تاکہ خواتین تشدد اور ہراساں کرنے سے متعلق واقعات فوری رپورٹ کروا سکیں۔
صوبائی حکومت نے یہ مخصوص ’موبائل ایپ‘ پنجاب میں خواتین کے حقوق سے متعلق کمیشن کے ساتھ مل کر بنائی ہے۔
’ویمن سیفٹی ایپ‘ یعنی خواتین کے تحفظ سے متعلق یہ ایپ اسمارٹ فون پر ’’گوگل پلے اسٹور‘‘ سے مفت ڈاؤن لوڈ کر کے استعمال کی جا سکتی ہے۔
اس موبائل فون ایپلکیشن کو استعمال کرتے ہوئے خواتین تشدد اور ہراساں کرنے کے واقعات کو رپورٹ کروا سکتی ہیں، جس پر اُنھیں فوری طور پر مدد فراہم کی جائے گی۔
پنجاب میں حقوق نسواں کمیشن کی سربراہ فوزیہ وقار نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ’’یہ اسمارٹ فون ایپلیکیشن ہے، جو خواتین کو یہ موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ خواتین سے متعلق تمام ہیلپ لائنز کو ایک ہی کلک سے ایکسس کر سکیں۔‘‘
فوزیہ وقار نے کہا کہ اس موبائل فون ایپ کے ذریعے خواتین اُن تمام علاقوں کی نشاندہی بھی کر سکتی ہیں، جہاں وہ خود کو غیر محفوظ تصور کرتی ہیں۔
’’اس طرح حکومت کے پاس اعداد و شمار آئیں گے جن کی بنیاد پر حکومت اُن علاقوں میں بہتری کے لیے اقدامات کرے گی۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ اس اپیلیکیشن کے استعمال اور اس بارے میں مزید معلومات پنجاب میں حقوق نسواں کمیشن کی ویب سائیٹ پر بھی جاری کی جائیں گی۔
’’ابھی یہ سہولت لاہور میں دستیاب ہے لیکن پانچ مزید اضلاع میں یہ سہولت فراہم کی جائے گی جن میں راولپنڈی، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سرگودھا اور ملتان شامل ہیں۔‘‘
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک سرگرم کارکن ربیعہ ہادی کہتی ہیں کہ موبائل فون کی سہولت اب ہر جگہ ہی موجود ہے اس لیے اس طرح کی سہولت اُن کے بقول ایک خوش آئند پیش رفت ہے۔
’’اس مثبت پیش رفت کو صرف پنجاب تک محدود نہیں رہنا چاہیئے بلکہ ملک کے دیگر صوبوں تک بھی جانا چاہیئے۔۔۔ اس سے ناصرف تشدد کے واقعات زیادہ رپورٹ ہوں گے بلکہ اُن کے تدارک کے لیے اقدامات کو بھی مضبوط کرنے میں مدد ملے گی۔‘‘
ربیعہ ہادی کا کہنا ہے کہ اس موبائل ایپ سے خاص طور پر نوجوان خواتین خود کو زیادہ محفوظ محسوس کریں گی کیوں کہ وہ اس اعتماد کے ساتھ گھر سے باہر نکل سکیں گی کہ کسی بھی مشکل میں وہ اپنے موبائل فون کا صرف ایک بٹن دبا کر مدد حاصل کر سکتی ہیں۔
پاکستان میں خواتین کو ہراساں کرنے اور اُن پر تشدد کے انسداد کے لیے حالیہ برسوں میں قانون سازی بھی کی گئی ہے اور ایک صوبائی حکومت کی طرف سے موبائل فون ایپ متعارف کروانا بھی اُسی جانب ایک پیش رفت ہے۔
تاہم حقوق نسواں کی سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ محض کسی ایک ’ایپ‘ کو تمام مشکلات کا حل سمجھنا درست نہیں ہو گا اور خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کوششیں مسلسل جاری رکھنا ہوں گی۔