رسائی کے لنکس

عمران خان نے ارکان پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کو روک دیا


پنجاب اسمبلی کے اجلاس کا ایک منظر، فائل فوٹو
پنجاب اسمبلی کے اجلاس کا ایک منظر، فائل فوٹو

ایکسپریس نیوز میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے پنجاب کے گورنر کو اراکین پنجاب اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کی سمری پر دستخط نہ کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہیں اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو کہا ہے کہ مراعات سے متعلق بل دوبارہ ایوان میں لانے کا کہا ہے۔

رپورٹ کے مطابق وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ وزیراعلٰی کو دی گئی تا حیات مراعات کے فیصلے پر نظر ثانی کی جائے کیونکہ وزیر اعلیٰ کو پوری زندگی کے لئے گھر دینے کا فیصلہ مناسب نہیں۔ وزیراعظم نے لائف ٹائم مراعات کا دورانیہ زیادہ سے زیادہ 3 ماہ تک رکھنے کی تجویز دی ہے۔

اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ایک ٹوئٹ میں پنجاب کے وزیراعلیٰ، اور وزراء سمیت ارکان اسمبلی کی تنخواہوں میں کئی گنا اضافے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ موجودہ حالات میں یہ فیصلہ بلاجواز ہے۔

تنخواہوں اور مراعات میں اضافے فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب موجودہ حکومت نے سادگی اورکفایت شعاری مہم شروع کر رکھی ہے اور حکومتی اخراجات میں کٹوتیاں کی جا رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے اپنی ٹویٹ میں اس بل کو مسترد کرتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک میں خوشحالی لوٹ آئے تو ایسے فیصلے کا کوئی عذر پیش کیا جاسکتا ہے تاحال ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرسکیں ایسے میں یہ فیصلہ نا قابل قبول ہے۔

دلچسپ پہلو یہ ہے کہ تنخواہوں میں اٖضافے کے بل کی منظوری کے بعد پنجاب کے وزیر اعلی عثمان بزدار کی ایک ماہ کی تنخواہ میڈیا ذرائع کے مطابق تقریباً 7 گنا بڑھ کر اب تین لاکھ 50ہزار ہو گئی ہے، جبکہ وزیر اعظم عمران خان کی ایک مہینے کی تنخواہ ایک لاکھ 96 ہزار 979 روپے ہے۔

پنجاب اسمبلی میں اتفاق رائے سے عجلت میں منظور کیے جانے والے بل کے مطابق پنجاب اسمبلی کے ایک رکن کی تنخواہ اور مراعات 83 ہزار سے بڑھا کر دو لاکھ روپے کرنے کی منظوری دی گئی ہے۔ اسی طرح ڈیلی الاونس، ہاوس رینٹ اور مہمان داری الاوئنسز میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ پنجاب کے صوبائی وزرا، سپیکر اور ڈپٹٰی سپیکر کی تنخواہوں اور مراعات میں بھی غیر معمولی اضافہ کیا گیا ہے۔

تنخواہوں میں اضافے کا بل تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر منظور کیا، جن میں پاکستان تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے ارکان پنجاب اسمبلی بھی شامل ہیں۔

طریقہ کار کے مطابق تنخواہوں میں اضافے کا بل منظوری کے بعد گورنر پنجاب کو بھجوا دیا گیا ہے۔ اگر انہوں نے اس پر دستخط کر دئے تو یہ قانون بن جائے گا۔ گورنر پنجاب آئینی طور پر دس دن کے اندر بل پر غور کے لئے اسے دوبارہ اسمبلی بھجوا سکتے ہیں۔

وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے پنجاب اراکین اسمبلی کی تنخواہوں کے بل کو وفاقی حکومت کی پالیسیوں سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس پر فوری نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔

عوامی حلقوں میں بھی یہ کہتے ہوئے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ عوامی یا قومی مسائل پر یہ سیاسی جماعتیں آسانی سے متفق نہیں ہوتیں لیکن ذاتی مفادات کے لئے سب اکٹھے ہو جاتے ہیں۔

سینیر تجزیہ کار پروفسیر منور صابر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام موجودہ حکومت کے کفایت شعاری اور سادگی کے نعرے کے بالکل متضاد ہے۔

تحریک انصاف کی پنجاب حکومت کے وزیر اطلاعات صمصام بخاری بھی اس بل کی منظوری سے خوش نہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں پارٹی کے اندر مختلف آرا تھیں اب دیکھیں آگے کیا ہوتا ہے۔

پنجاب اسمبلی میں منظور کئے گئے بل یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ کا تعلق لاہور سے نہ ہو اور ان کے پاس لاہور شہر میں کوئی مستقل گھر نہ ہو تو انہیں لاہور شہر میں گھر بھی دیا جائے گا جہاں وہ تاحیات مقیم رہ سکیں گے۔ یہ شق موجودہ وزیر اعلیٰ عثمان بزدار پر لاگو ہوتی ہے۔

پنجاب اسمبلی میں بڑی اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی خواجہ عمران نذیر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب اسمبلی میں اراکین کی تنخواہیں باقی صوبوں کی اسمبلیوں سے کم تھیں۔ انہیں بڑھانا درست فیصلہ ہے لیکن وقت کا انتخاب درست نہیں تھا۔

عمران نذیر نے وزیر اعظم عمران خان کی ٹویٹ کو بھی یو ٹرن قرار دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ تنخواہوں میں اٖضافے کے بل پر کئی روز سے بحث جاری تھی۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وزیر اعظم کو اس کا علم نہ ہو۔

وزیر اعظم عمران خان کی تنخواہ کی سلپ کا عکس
وزیر اعظم عمران خان کی تنخواہ کی سلپ کا عکس

تجزیہ کار منور صابر کہتے ہیں کہ اگر تنخواہوں میں اٖضافہ کرنا ہی تھا تو بجٹ کا انتظارکر لینا چاہیے تھا۔ اگر اضافہ 15 سے 20 فیصد ہوتا تو شاید اسے ہضم کرنا آسان ہوتا لیکن تین سے چار گنا اضافہ بلا جواز ہے۔

پنجاب اسمبلی ملک کی سب سے بڑی صوبائی اسمبلی ہے جس میں اراکین کی کل تعداد 371 ہے۔ حالیہ اضافے کی اگر گورنر پنجاب بھی منظوری دے دیتے ہیں تو اراکین کی تنخواہوں کی مد میں پنجاب حکومت کو کروڑوں روپے اضافی خرچ کرنا ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG