تحریک انصاف میں شعبہ خواتین کی صدر نے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ وہ ووٹر کے طورپر اپنے آپ کو رجسٹر کروالیں اور یہ کہ ووٹ ڈالنے کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے پاس شناختی کارڈ یا 'نائیکوپ' ہونا لازم ہے۔
فوزیہ قصوری نے بیرون ملک پاکستانیوں پر زور دیا ہے کہ وہ پاکستان کے پارلیمانی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا شناختی کارڈ یا 'نائیکوپ' حاصل کرلیں، اور اس طرح اپنی رجسٹریشن کو یقینی بنائیں۔
پیر کی شام ورجینیا میں اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُنھوں نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ سمند پار پاکستانیوں کو رائے دہی کا حق دیا گیا ہے، جس سے، اُن کے بقول، بیرون ملک پاکستانیوں میں ملک کی ترقی اور خوشحالی میں شریک ہونے کی خواہش اور خدمت کا جوش و جذبہ پروان چڑھ رہا ہے۔
الیکشن کمیشن ذرائع کے مطابق، اب تک 37 لاکھ افراد کے پاس بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا شناختی کارڈ یا 'نائیکوپ' ہے۔
فوزیہ قصوری نے کہا کہ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ماضی میں اُنہی قوموں نے تیزی سے ترقی کی منازل طے کی ہیں جن کے بیرون ملک باشندوں نے ملک کی بہتری اور ترقی میں دلچسپی لی اور مختلف شعبہ جات میں اُن کےوسیع تجرے اور قابلیت سے ملک نےاستفادہ کیا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ 'دوہری شہریت' کا حق تسلیم کیا جانا ایک 'خوش آئند' بات ہے، جب کہ بیرون ملک آباد پاکستانیوں کی طرف سے ملکی انتخابات میں امیدوار کے طور پر شرکت کا معاملہ اس وقت عدالت عظمیٰ کےسامنے زیر غور ہے۔ اس سلسلے میں اُنھوں نے تحریک انصاف کے راہنما حامد خان ایڈووکیٹ کی طرف سے پیروی کیے جانے والے مقدمے کا حوالہ دیا۔
ایک سوال کے جواب میں فوزیہ قصوری کا کہنا تھا کہ یہ بات درست نہیں کہ دوہری شہریت سے 'مفادات کے تضاد' کا معاملہ جنم لے سکتاہے۔
فوزیہ قصوری نے کہا کہ تحریک انصاف کا موقف ہے کہ 'انصاف اور معاشی مواقع کی عدم دستیابی' نے پاکستانی معاشرے کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے، جس سے سماجی بدحالی، سخت مایوسی اور عدم دلچسپی پھیل چکی ہے۔ اُن کے بقول، 64 برس کا ملبہ ایک ہی دن میں صاف کرنا ناممکنات میں سے ہے، اور یہ کہ ملکی سیاست کرپشن، بد دیانتی اور ذاتی مفادات کا ذریعہ بن کر رہ گئی ہے، جس سے ملکی نظام درہم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ 'سٹیٹس کو' کی سیاست کو ترک کرنا ہوگا اوریہ کہ تبدیلی وقت کی اولین ترجیح ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اُنھوں نے تحریک انصاف میں شامل ہونے والے سیاستدانوں کا دفاع کیا اور کہا کہ وہ ملکی سیاست کا ایک وسیع تجربہ رکھتے ہیں، جس سے پارٹی کے علاوہ ملک و قوم کو فائدہ ہوگا۔ اُن کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف 'متوسط طبقے' کی جماعت ہے، اور یہ کہ پاکستانی سیاست میں تبدیلی لانے کے لیےکسی پارٹی کو 1100امیدوار درکار ہوتے ہیں، جو انتخابات جیت سکتے ہوں۔ اس سلسلےمیں، اُنھوں نے کہا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ اُن کی جماعت نے کسی عجلت کا مظاہرہ کیا ہے۔
اُنھوں نے اس تاثر کی نفی کی کہ تحریک انصاف 'اسٹیبلشمنٹ' کی جماعت ہے، اور اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مذہب کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔
امریکہ سے تعلقات کے بارے میں، فوزیہ قصوری نے کہا کہ اُن کی پارٹی بشمول امریکہ، تمام ممالک سے بہتر اور قریبی تعلقات کی حامی ہے، لیکن دہشت گردی سے نمٹنے کا معاملہ 'صرف اور صرف ڈائلاگ کے ذریعے ہی ممکن ہے'۔ بھارت سے تعلقات کے ضمن میں اُن کا کہنا تھا کہ ہمسایہ ملک کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے چاہیئیں، لیکن کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق خودمختاری کے حق کی ضمانت دی جانی چاہیئے۔
اُن کے بقول، پاکستان کی خارجہ پالیسی کی اساس، برابری ہونی چاہیے نہ کہ غلامی۔
بلوچستان سے متعلق ایک سوال پر، اُنھوں نے کہا کہ یہ صوبہ شروع دن سے 'لاورث' اور 'مفلسی اور بیزاری کی علامت بنا رہا ہے'، جس کے ' زیادہ ترذمہ دار اُن کے بقول، 'بدعنوان سیاستدان ہیں'۔ اُن کے بقول، ضرورت اس بات کی ہے کہ 'ظلم و ستم کا سلسلہ' ختم کرکے بلوچوں کو معدنی دولت میں حصہ دار بناکر اُن کےمسائل حل کیے جائیں۔
عام انتخابات کے بارے میں فوزیہ قصوری کا کہنا تھا کہ اُن کی پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوگی۔ اُن کے بقول، 'آنے والے انتخابات ملک کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے'۔
پریس کانفرنس میں پارٹی راہنما ڈاکٹر محمد اسد خان اور اکبر چودھری بھی موجود تھے۔امریکہ آنے سے قبل، وہ برطانیہ، فرانس، اٹلی، بیلجیم کا دورہ کرچکی ہیں۔