پیپلز پارٹی کے شریک چیرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے تحریک انصاف کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ موجودہ حکومت کی نااہلی کم وقت میں سامنے آ گئی ہے اور تمام سیاسی جماعتوں کو اکھٹا ہو کر قراداد لانی ہوگی کہ نہ یہ حکومت چل سکتی ہے اور نہ ہی ملک چلا سکتی ہے ۔
اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ وہ چیئرمین نیب جاوید اقبال کو برا بھلا نہیں کہتے بلکہ ان کے طور طریقوں اور سوچ کو برا بھلا کہتے ہیں۔ کرسی پر بیٹھ کر سوچ بدل جاتی ہے۔ یہ ذہنی طور پر چھوٹے لوگ ہیں۔ انہیں تھوڑی سی طاقت ملتی ہے تو ان سے سنبھالی نہیں جاتی۔
آصف زرداری نے نواز شریف پر بھی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ آج جو کیس بھگت رہا ہوں وہ نواز شریف کا ہی بنایا ہوا ہے۔ ہم نے اپنے دورمیں مستقبل کی پالیسیاں بنائیں جو میاں صاحب کوپسند نہ آئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے کسی بات کی پرواہ کیے بغیر پارلیمنٹ کو تمام اختیارات منتقل کیے۔ بطورِ قوم ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کس سمت میں جا رہے ہیں۔ مستقبل کی سمت کا تعین کرنے کے لیے اصولی فیصلہ کرنا ہو گا۔
پی پی رہنما نے مزید کہا کہ پرویز مشرف کی حکومت میں ہم جیلوں میں تھے۔ مشرف کو نائن الیون کے بعد امداد ملی تو حالات بہتر ہوئے۔ پرویز مشرف کی آمد پر بھی ایسے ہی حالات تھے۔ ملک بحران کا شکار تھا۔
اُنہوں نے اپنے دورِ حکومت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پیپلز پارٹی حکومت نے ڈیلیور کیا ہے۔ آصف زرداری نے این آراو کو ڈھکسولا قرار دیتے ہوئے کہا کہ این آر او کا مجھے کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سابق چیف جسٹس نے این ار او کو ختم کردیا تھا جس کے بعد مجھے تمام مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایم کیو ایم اور دیگر سیاسی جماعتوں نے اس سے فائدہ اٹھایا تھا بلکہ سب سے زیادہ فائدہ شاید نواز شریف کو ہوا تھا۔
آصف زرداری نے کہا کہ حکومت سازشوں کا مرکز اور اسلام آباد سازشوں کا شہر ہے۔ ہم کس سمت جارہے ہیں اصولی فیصلہ کرنا ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتوں کو اکھٹے ہو کر قراداد لانا ہوگی کہ یہ حکومت نہیں چل سکتی نہ ہی ملک چلاسکتی ہے۔
اس سے قبل پیپلزلائیرز فورم پاکستان کنونشن آصف علی زرداری کی سربراہی میں منعقد ہوا جس میں متعدد قراردادیں منظور کی گئیں۔ کنونشن میں قراداد منظور کی گئی کہ موجودہ حکومت نے، جو ایک مشکوک انتخابی عمل سے وجود میں آئی ہے، تھوڑے ہی عرصے میں یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ حکومت چلانے کی صلاحت نہیں رکھتی اور اس کے نتیجے میں ملک معاشی اور دیگر بحرانوں کا شکار ہو چکا ہے۔ پاکستانی عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دب گئے ہیں اور غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے جا رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیئے کہ وہ مشاورت کے ذریعے کام کرے اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کے ساتھ ساتھ قوم کو بھی اعتماد میں لے اور فیصلے اتفاق رائے سے کئے جائیں۔
سابق صدر کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں آیا ہے کہ ضمنی انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کو نقصان اٹھانا پڑا ہے اور مشکل معاشی صورتحال کی وجہ سے پی ٹی آئی حکومت کو بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑرہا ہے جس سے حکومت کو عوامی غصہ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔