رسائی کے لنکس

ڈیرہ اسماعیل خان میں حکومت نواز عسکریت پسندوں کی موجودگی اور سرگرمیوں پر تشویش


فوج کے اہل کار ڈیرہ اسماعیل خان میں گشت کر رہے ہیں۔ فروری 2009
فوج کے اہل کار ڈیرہ اسماعیل خان میں گشت کر رہے ہیں۔ فروری 2009

شمیم شاہد

خیبر پختون خوا کے جنوبی شہر ڈیرہ اسماعیل خان میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے احمدزئی وزیرقبائل اورمبینہ حکومت نواز عسکریت پسندوں کے درمیان چند روز پہلے ہونے والے تنازع کے باعث سخت کشیدگی پائی جاتی ہے۔

شہر کے وسطی علاقے نظام بازارمیں ابھی تک پولیس تعنیات ہے اور کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں، جہاں چند روز پہلے ایک کالعدم شدت پسند گروپ کے سربراہ مصباح الدین محسود کا گھر احمدزئی وزیرقبائل نے ایک نوجوان کی ہلاکت کے رد عمل میں جلا دیا تھا۔

ڈیرہ اسماعیل خان پولیس نے اس سلسلے میں 11 اہم لیڈروں سمیت لگ بھگ 200 افراد کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے کئی لوگوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ لیکن دونوں جانب کشیدگی برقرار ہے۔

احمدزئی وزیرقبائل 4 فروری کو مقامی لاء کالج کے طالب علم ادریس وزیر کے قتل پر احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ادریس کے قتل میں نامزد 3 میں سے ایک ملزم نے گرفتاری دے دی ہے جب کہ 2 ابھی تک روپوش ہیں۔

گرفتاری کے لیے پیش ہونے و الا ملزم مصباح الدین محسود کا قریبی رشتہ دار بتایا جاتا ہے۔

ادھرڈیرہ اسماعیل خان میں رونما ہونے والے اس واقعہ پر، بالخصوص شہر میں حکومت نواز عسکریت پسندو ں اور ان کے دفتر کی موجودگی اور سرگرمیوں پر سیاسی و سماجی حلقوں نے تشویش کا اظہارکیا ہے۔ یہ عسکریت پسند خود کو امن کمیٹی کہلواتے ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات زاہدخان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں حکومت کے حامی عسکریت پسندوں کی ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں موجودگی کو نہ صرف 20 دسمبر 2014 کو حکومت کے عسکریت پسندوں کے خلاف وضع کردہ قومی لائحہ عمل بلکہ ملکی مفادات کے خلاف منافی قرار دیا ہے۔

’’’جب تک اچھے اور برے طالبان کے درمیان تمیز ختم نہیں کی جائے گی تب تک مسئلہ حل نہیں ہو سکتا اور نہ پاکستان اورافغانستان کے درمیان تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں‘‘

زاہدخان نے کہا کہ اچھے طالبان کی موجودگی کے باعث اب سرحدی علاقے مبینہ امریکی ڈرون حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ فی الفور ان عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کرے۔

عوامی نیشنل پارٹی کے راہنما نے ڈیرہ اسماعیل خان میں عسکریت پسندوں کی موجودگی اور ان کی سرگرمیو ں کوخیبرپختونخوا پولیس کی کارکردگی پرسوالیہ نشان قرار دیا۔

دفاعی تجزیہ کار اور قبائلی علاقوں کے سابق سیکرٹری بریگیڈیر(ر) محمود شاہ نے بھی ڈیرہ اسماعیل خان شہر میں حکومت کے حامی عسکریت پسندوں اور احمدزئی وزیر قبائل کے درمیان محاذآرائی سے پیدا ہونے والی صورت حال کو ملک بالخصوص خیبرپختونخوا کے امن و امان کے لئے تشویش ناک قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر فریقین میں صلح کرے تاہم انہوں نے سابق عسکریت پسندوں کو کھلم کھلاچھٹی دینے کے فیصلے کو ملکی مفادات کے خلاف قرار دیا۔

ڈیرہ اسماعیل خان وکلاء کی تنظیم کے سابق صدرشہاب الدین ایڈوکیٹ نے کہا کہ یہ خطہ پہلے ہی سے (فرقہ وارانہ کشیدگی کے باعث) حساس ہے اور یہاں پر عسکریت پسندوں کو رہنے اور سرگرمیاں جاری رکھنے کی اجازت دینے سے حالات مزید کشیدہ ہو سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پشاور کے آرمی پبلک سکول پر 16 دسمبر 2014 کو ہونے والے حملے کے بعد حکومت نے عسکریت پسندی کے خاتمے کے لئے قومی لائحہ عمل تشکیل دیا تھا اور یہ فیصلہ ہوا تھا کہ نہ صرف عسکریت پسندوں بلکہ عسکریت پسندوں کی حمایت کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی کی جائے گی مگر ابھی تک اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا۔

شہاب الدین ایڈوکیٹ نے حکومت پر زور دیا کہ وہ فوری طورپر اس کشیدگی کو ختم کرے۔

XS
SM
MD
LG