رسائی کے لنکس

’پرنس‘ سالہا سال تک یتیم افغان بچوں کی مدد کرتا رہا


’پارسہ‘ کابل میں قائم ایک بین الاقوامی امدادی تنظیم ہے، جس کی پاپ اسٹار مدد کیا کرتے تھے، جو افغانستان میں یتیموں اور اپاہج افراد کی مدد کیا کرتی ہے۔ یہ تنظیم کابل میں یتیم افغان ’بوائے‘ اور ’گرل اسکاؤٹس‘ کی تربیت کے لیے ایک مرکز تعمیر کر رہی ہے

نصف درجن برسوں کے دوران، اور گذشتہ ماہ اپنے انتقال تک، نامور امریکی گلوکار اور پاپ اسٹار، ’پرنس‘ نجی طور پر یتیم افغان بچوں کو ہزاروں ڈالر کی رقوم بھیجا کرتے تھے۔ یہ بات افغانستان میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والی ایک تنظیم نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتائی ہے۔

’پارسہ‘ کابل میں قائم ایک بین الاقوامی امدادی تنظیم ہے، جس کی پاپ اسٹار مدد کیا کرتے تھے، جو افغانستان میں یتیموں اور اپاہج افراد کی مدد کیا کرتی ہے۔ یہ تنظیم کابل میں یتیم افغان ’بوائے‘ اور ’گرل اسکاؤٹس‘ کی تربیت کے لیے ایک مرکز تعمیر کر رہی ہے۔

پارسہ کی منتظم اعلیٰ، مارین گستاوسن نے کابل میں ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’ہمیں 15000 ڈالر کا ایک چیک موصول ہوا، جس سے میرے عملے کو حوصلہ ملا، جس مدد سے بچوں کے لیے پانچ روز تک کی ورکشاپ کھولنے کی جگہ میسر آئی، جہاں اسکاؤٹ ماسٹرز قیام کرتے اور کیمپ کی سرگرمیاں چلاتے تھے۔ اب ہمارے پاس یہ مرکز موجود ہے‘‘۔

پرنس کے عطیے کی وجہ سے، پارسہ اسکاؤٹنگ پروگرام میں بچوں کی تعداد 30 سے بڑھ کر 2000 ہوگئی ہے۔

گستاوسن کے الفاظ میں ’’وہ اس کا موجب بنے۔ اُنھوں نے وہ کچھ دیا جس کی ہمیں ضرورت تھی۔‘‘

اُنھوں نے بتایا کہ ’’اپنی زندگی کی آخری ایام تک، اُنھوں نے افغان اسکاؤٹ پروگرام کے لیے اپنی امداد جاری رکھی۔ ‘‘

گستاوسن نے بتایا کہ ابتدائی تحفوں کے بعد، پرنس ہر سال 6000 ڈالر کی رقوم روانہ کیا کرتے تھے۔

تاہم، آنجہانی پاپ اسٹار نے اپنے خدمت خلق کے جذبے کو سیغہٴ راز میں رکھا۔

گستاوسن کے بقول، ’جس قسم کے وہ آدمی تھے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ لوگ اُن کی خدمت خلق کو رازداری کو جانیں۔ یہی اُن کا راز تھا جسے میں اس لیے بیان کر رہی ہوں تاکہ اُن کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاسکے۔ یہ اُن کی زندگی کا وہ پہلو
ہے جس کا زیادہ تر لوگوں کو علم نہیں۔‘‘

اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’میں سمجھتی ہوں کہ یہ اُن کی خاص بات تھی، اور اس پہلو کا سب کو پتا نہیں ہے‘‘۔

جو کمسن اسکاؤٹ پرنس کی فراخ دلی سے استفادہ کرتے رہے، وہ بھی اُن کی شناخت سے واقف نہیں تھے۔

ایک گرل اسکاؤٹ نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’یہ ایک راک اسٹار گروپ تھا۔ مجھے اُن کا نام نہیں معلوم‘‘۔

افغانستان میں اسکاؤٹنگ کی طویل تاریخ ہے، جس کا سنہ 1931 میں بادشاہ نادر خان کی قائدانہ سرپرستی میں آغاز ہوا۔ تاہم، سنہ 70 کی دہائی کے اواخر میں افغانستان پر سویت حملے اور بعدازاں شدت پسند طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد، اسکاؤٹنگ کم ہوتے ہوتے قصہٴ پارینہ بن گئی۔

پارسہ کے مطابق، تنظیم کے اسکاؤٹنگ پروگرام کا مقصد، جس کے ارکان یتیم بچے ہیں، افغان بچوں کو با اختیار بنانا اور اُنھیں انتہاپسند گروہوں کے جھانسے سے محفوظ رکھنا ہے۔ اس وقت افغانستان کے 14 صوبوں میں اس پروگرام میں درج بچوں کی تعداد 1800 سے زیادہ ہے۔

افغانستان کے وزیر برائے امور ِنوجوانان، کمال سعادت کے بقول، ’’جب وہ زندہ تھے، ہمیں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ اعانت کون فراہم کرتا ہے‘‘۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’جب اُن کا انتقال ہوا، تب جا کر ہمیں اس بات کا پتا چلا۔ ہمیں اُن کی موت پر دکھ ہے۔ ہم اُن کے مشکور ہیں۔ خدا کرے دنیا میں اُن جیسے لوگ زیادہ ہوں‘‘۔

XS
SM
MD
LG