فلپائن کے ایک جنوبی شہر میں شدت پسندوں نے ایک مسیحی پادری سمیت چرچ جا نے والے ایک درجن سے زائد افراد کو اغوا کر لیا ہے۔
عہدیداروں نے بدھ کو کہا کہ شدت پسندوں نے گزشتہ رات شہر کو محاصرے میں لینے کے بعد کئی عمارتوں کو نذر آتش کیا اور فوجیوں پر چھپ کر حملے کیے اور کئی ایک مقامات پر داعش کے پرچم لہرا دیئے۔
فلپائن کے صدر روڈریگو ڈوٹرٹے نے ملک کے شورش زدہ جنوبی علاقے میں 60 دنوں کے لیے مارشل لا لگا دیا ہے اور متنبہ کیا ہے کہ وہ اس کا سختی سے نفاذ کریں گے۔
تشدد منگل کی رات اس وقت شروع ہوا جب فلپائن کی فوج نے ابو سیاف گروپ ایک شدت پسند راہنما راہنما اسنیلون ٹوٹونی ہاپیلون کو گرفتار کرنے کے لیے شہر کے ایک مکان پر چھاپہ مار تھا اس کا اسلامی نام ابو عبداللہ الفلپینی بتایا جاتا ہے.
اس کا نام امریکہ کو نہایت مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہے، واشنگٹن نے اس کی گرفتاری پر پچاس لاکھ ڈالر کا انعام مقرر کر رکھا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ اس دوران عسکریت پسندوں نے اپنے ایک دوسرے حامی گروپ سے مدد طلب کی جس کے بعد لگ بھگ 50 مسلح جنگجو ماروی شہر میں داخل ہو گئے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے فلپائن کے کیتھولک بشپس کی کانفرنس کے صدر آرچ بشپ سقراط ولیگاس کے حوالے سے بتایا کہ عسکریت پسند ماراوی شہر میں واقع ایک کھتیڈرل میں زبردستی داخل ہو کر ایک پادری اور وہاں عبادت میں مصروف 10 افراد اور چرچ کے تین کارکنوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔
ولیگاس نے کہا کہ پادری فادر چیٹو اور دیگر افراد کا شہر میں ہونے والے تنازع میں کوئی کردار نہیں تھا۔
ولیگاس نے چیٹو کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ نا تو وہ لڑائی میں شریک تھے ناہی مسلح یا خطرہ تھے، اس لیے ان کی اور دیگر ساتھیوں کی گرفتاری مہذب تنازع کے اصول کے خلاف ہے۔
ولیگاس نے کہا کہ مسلح افراد حکومت سے اپنی فورسز واپس بلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دوسری طرف صدر ڈوٹرے نے شورش کا شکار منڈاناؤ کے علاقے میں 60 دنوں کے لیے مارشل لگانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ مسلح افواج تلاشی اور شدت پسندوں کو حراست میں لینے کی کارروائی موثر طریقے سے جاری رکھیں۔