پوپ فرانسس نے اتوار کے روز جاپان کے ایک شہر ناگاساکی میں اپنے خطاب میں جوہری ہتھیاروں کو ختم کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ انہیں رکھنے کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔
ناگاساکی جاپان کے ان دو شہروں میں سے ایک ہے جہاں جوہری بم گرائے گئے تھے۔ جس سے دونوں شہر کھنڈر بن گئے اور ہزاروں افراد آناً فاناً ہلاک ہو گئے۔ یہ سلسلہ آنے والے کئی عشروں تک جاری رہا اور تابکاری کے اثرات زندگیوں اور ماحول کو متاثر کرتے رہے۔
انہوں نے 2017 کے جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے کی ایک بار پھر حمایت کی جس پر اقوام متحدہ کے تقریباً دو تہائی ارکان متفق ہو گئے تھے لیکن بڑی جوہری طاقتوں کی مخالفت کی وجہ سے اس پر پیش رفت نہ ہو سکی۔ جوہری طاقتوں کا موقف تھا کہ روایتی جنگوں سے اب تک بچے رہنے کا کریڈٹ جوہری بم کو جاتا ہے۔
پوپ فرانسس نے ناگاساکی میں ہلاک ہونے والوں کی یادگار پر شمع روشن کرتے ہوئے کہا کہ امن کی خاطر بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے جوہری ہتھیار رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ امن اور عالمی استحکام کے قیام کو مکمل تباہی کے خوف سے جوڑا نہیں جا سکتا۔
پوپ ناگاساکی میں جوہری بم کی تباہ کاریوں سے متعلق ایک پارک کے گراؤنڈ زیرو پر خطاب کر رہے تھے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں 9 اگست 1945 کو امریکہ نے جوہری بم گرایا تھا جس سے فوری طور پر 27000 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ناگاساکی دوسری جنگ عظیم کے دوران جوہری بم کا نشانہ بننے والا دوسرا شہر تھا۔ پہلا جوہری بم ہیروشما پر گرایا گیا تھا جس نے چند ہی منٹوں میں 78000 سے زیادہ افرا د کو ہلاک کر دیا تھا۔جب کہ اس کے بعد آنے والے دنوں اور مہینوں میں تابکاری سے چار لاکھ سے زیادہ افراد اپنی جانوں سے محروم ہو گئے تھے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے یہ بم عالمی جنگ ختم کرنے کے لیے گرائے تھے۔
ناگاساکی میں جوہری بم کی یادگار کے بعد پوپ فرانسس نے راسخ العقیدہ مسیحوں کی یادگار پر خطاب کیا۔ یہ یادگار ان لوگوں سے عقیدت کے اظہار میں قائم کی گئی ہے جنہوں نے جاپان میں مسیحت پر پابندی کے 250 برسوں کے دوران صعوبتیں برداشت کیں۔ ان میں سے کئی ایک کو موت کا سامنا کرنا پڑا اور بہت سوں کو چھپ کر زندگی گزارنا پڑی۔