ماضی میں لوگ قاضی بننا ہی نہیں چاہتے تھے: چیف جسٹس
مبارک ثانی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی عیسیٰ نے کہا کہ ماضی میں لوگ قاضی یا جج بننا ہی نہیں چاہتے تھے کیوں کہ یہ مشکل ہے۔ مجھے بھی قاضی بننے کا کوئی شوق نہیں تھا۔
مبارک ثانی کیس میں نظرِ ثانی کی وفاقی حکومت کی اپیل کا ذکر کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے نظرِ ثانی کی درخواست دائر کی تو ہم نے فوری سماعت کے لیے مقرر کر دی۔کیا ہم نے کوئی بات چھپائی؟
مولانا فضل الرحمٰن کی گفتگو مکمل، 'آپ نے آخر تک بیٹھنا ہے'، چیف جسٹس کا مکالمہ
مبارک ثانی کیس میں سماعت کے دوران جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے اس معاملے پر کئی سماعتیں کی ہیں اور نظرِ ثانی جاری ہے۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ یہ نظرِ ثانی نہیں ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے جواب دیا کہ یہ نظرِ ثالث ہے۔ علما نے اپنی رائے دی ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل کی رائے بھی سامنے آ چکی ہے اور یہ آرا آپ کے فیصلے کے خلاف ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی اور بھی فیصلہ تھا جو آپ نے جمع کا صیغہ استعمال کیا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے فرمایا کہ آپ سے غلطیاں ہو جاتی ہیں۔ ہمارا بھی جمع کا صیغہ اگنور کریں۔
مولانا کا کہنا تھا کہ ’’میں 72 برس کی عمر میں پہلی بار کسی عدالت کے سامنے کھڑا ہوا ہوں، مجھے اللہ نے عدالت سے بچائے رکھا۔"
اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم اتنے برے نہیں ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ احمدی پوری امتِ مسلمہ کو غیر مسلم کہتے ہیں۔
ایک موقع پر مولانا فضل الرحمٰن نے احمدیوں کے پیشوا مرزا غلام احمد قادیانی کا ذکر کیا تو چیف جسٹس نے اُنہیں روک دیا اور کہا کہ میں اُن کی باتوں کو نہیں سننا چاہتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں نے تفسیرِ صغیر بھی نہیں دیکھی۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ یہ تو کہا جاتا ہے کہ ہم انہیں غیر مسلم کہتے ہیں۔ جو وہ کہتے ہیں اس پر بات نہیں ہوتی۔ پاکستان میں غیر مسلموں کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرنا چاہتے۔
فضل الرحمٰن کا مزید کہنا تھا کہ آج آپ سب شکایات کا ازالہ کر رہے ہیں۔ مبارک ثانی کو آپ ضمانت کا مستحق سمجھتے ہیں تو الگ بات ہے۔لیکن اس کے توہین آمیز اقدامات پر دفعات ساری لگیں گی۔
انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ مبارک ثانی کا ٹرائل جاری رہنا چاہیے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی آرا کو مدِ نظر رکھا جائے۔
مولانا فضل الرحمٰن کی گفتگو مکمل ہونے کے بعد چیف جسٹس نے اُنہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ "آپ نے آخر تک بیٹھنا ہے۔"
’میرے والد نے ایک قلم بھی پاکستان سے نہیں لیا‘
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے مولانا فضل الرحمٰن سے کہا کہ آپ کے والد ہمارے والد کی وفات پر تعزیت کے لیے ہماری والدہ کے پاس آئے تھے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرے والد کا قیامِ پاکستان میں کردار آپ کے علم میں ہوگا کہ کیا تھا؟
جسٹس فائز عیسیٰ کے بقول گورداسپور اور فیروز پور پاکستان کو ملتے تو کشمیر بھی پاکستان کو مل جاتا۔ سازش سے یہ علاقے پاکستان سے الگ نہ رکھے جاتے تو کشمیر بھی ہمیں ملتا۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’’میرے والد نے ایک قلم بھی پاکستان سے نہیں لیا۔‘‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’’میں نے بھی کوئی پلاٹ نہیں لیا۔ اگر لیا تو مجھ پر انگلی اٹھائیں۔‘‘
’یہ آپ کی عدالت ہے، آپ کا حکم چلے گا‘
مبارک احمد ثانی کیس میں سماعت کےدوران مفتی حنیف قریشی روسٹرم پر آئے اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے لوگوں کی دل آزاری کی ہے اور یہاں آپ بولنے بھی نہیں دے رہے۔ آپ یہاں لوگوں کو ڈانٹتے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ ہیں کون؟
انہوں نے کہا کہ ’’میں حنیف قریشی ایک مسلمان ہوں۔‘‘
بعد ازاں تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے وکیل ملک تیمور روسٹرم پر آئے اور عدالت کو آگاہ کیا کہ میری درخواست پہلے سے دائر ہے اس پر نمبر نہیں لگا۔
اس دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدالت میں موجود مولانا فضل الرحمٰن سے کہا کہ آپ ان لوگوں کو سمجھائیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے چیف جسٹس سے کہا کہ یہ آپ کی عدالت ہے، آپ کا حکم چلے گا۔
بعد ازاں مفتی شیر محمد خان نے دلائل شروع کر دیے۔
اس دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے فیصلے میں لکھا ہے کہ قانون کے خلاف کچھ نہیں ہو سکتا۔ 295 سی بھی قانون کے تابع ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدالت واضح کرے کہ قانون کے مطابق احمدی نجی مقامات پر بھی تبلیغ نہیں کر سکتے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت میں وقفہ کر دیا۔