پاکستان کے صوبے بلوچستان کے حکام نے کہا ہے کہ صوبے کے تین اضلاع کے گندے نالوں کے پانی کے تازہ نمونوں میں پولیو کے وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی ہے۔
حکام کے مطابق وائرس کی موجودگی کے انکشاف کے بعد فوری طور پر ان تین اضلاع میں سات روزہ اور صوبے کے دیگر اضلاع میں چار روزہ انسدادِ پولیو مہم چلائی گئی۔
پولیو ایمرجنسی سینٹر بلوچستان کے سربراہ ڈاکٹر آفتاب کاکڑ نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کے دوران بتایا ہے کہ 2017ء میں صوبے کے دو اضلاع میں پولیو کے تین کیس سامنے آئے تھے جس کے بعد گزشتہ سال دسمبر اور جنوری کے پہلے ہفتے میں کوئٹہ، قلعہ عبداللہ، چمن اور ژوب کے سیوریج کے پانی کے نمونوں کے تجزیے کیے گئے۔
انہوں نے بتایا کہ تین اضلاع کے نتائج میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق ہوگئی ہے جب کہ باقی کچھ اضلاع کے پانی کے نمونوں کے تجزیے ابھی آنا باقی ہیں۔
ڈاکٹر آفتاب کا کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر چمن کے راستے روزانہ تقریباً 50 ہزار افراد سرحد کے آر پار جاتے ہیں جن میں سے بچوں کے ساتھ بعض بڑے بھی پولیو وائرس پاکستان لاتے ہیں جس کا ثبوت نالوں سے لیے گئے پانی کے حالیہ نمونوں سے ملتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم کے لوگ روزانہ 1500 بچوں کو چمن کے سرحدی راستے پر پولیو کے قطرے پلا رہے ہیں۔
ڈاکٹر آفتاب نے بتایا کہ حالیہ نمونوں سے اس بات کی بھی تصدیق ہوگئی ہے کہ کوئٹہ، چمن اور افغانستان کے صوبے قندھار کے قریبی علاقوں میں ایک ہی ٹائپ کا پولیو وائرس موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وائرس کے خاتمے کے لیے بلوچستان اور قندھار کے علاقوں میں پولیو حکام آپس میں رابطے میں ہیں اور دونوں ممالک میں ایک ہی وقت میں انسدادِ پولیو مہم چلاتے ہیں جس کا مثبت نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب ہر دو ممالک کے ان علاقوں میں پولیو کے کیس کافی کم ہوگئے ہیں۔
بلوچستان میں گزشتہ ہفتے چلائی جانے والی ہفت روزہ انسدادِ پولیو مہم کے دوران سات ہزار پولیو ٹیموں کے ذریعے پانچ سال سے کم عمر صوبے کے تقریباً 25 لاکھ بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے تھے۔ اس دوران پولیو کی ایک ٹیم پر نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے دو خواتین رضاکار ہلاک بھی ہوگئی تھیں۔
ڈاکٹر آفتاب کا کہنا ہے کہ اس واقعے کے بعد انسدادِ پولیو ٹیموں کی حفاظت کے لیے حکمتِ عملی تبدیلی کی گئی ہے اور اب جس علاقے میں انسدادِ پولیو مہم چلانی ہو اُس علاقے کے بارے میں خفیہ اداروں کی رپورٹ کو دیکھ کر سکیورٹی تعینات کی جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چونکہ بلوچستان میں سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں پر بھی حملے ہوتے رہے ہیں لہذا اب جہاں بھی یہ مہم چلانی ہوتی ہے اُس علاقے کو مکمل طور پر گھیرے میں لے کر بند کردیا جاتا ہے اور اضافی گشت کے ساتھ ساتھ سادہ کپڑوں میں سیکورٹی اہلکار بھی ٹیموں کے ساتھ تعینات کیے جاتے ہیں۔
پاکستان اور افغانستان دنیا کے دو ایسے ممالک ہیں جہاں انسانی جسم کو عمر بھر کے لیے معذور کردینے والے اس موذی مرض کا وائرس اب بھی موجود ہے۔
گزشتہ سال 2017ء میں پاکستان میں پولیو کے آٹھ اور افغانستان میں 13 کیس سامنے آئے تھے۔ پولیو وائرس کا شکار تیسرا ملک نائیجیریا تھا جہاں عالمی ادارہ صحت کے مطابق 2017ء میں پولیو کا کوئی کیس ریکارڈ نہیں ہوا۔