کراچی پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے تصدیق کی ہے کہ 13 جنوری کو ہونے والا مشکوک پولیس مقابلہ جعلی تھا جس میں ایک قبائلی نوجوان نقیب اللہ محسود کی ہلاکت کے خلاف گزشتہ کئی روز سے احتجاج کیا جارہا ہے۔
مبینہ پولیس مقابلے کی محکمانہ تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ ڈی آئی جی ثناء اللہ عباسی نے مقابلے کے جعلی ہونے کا اعتراف منگل کو نقیب اللہ محسود کی یاد میں کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں ہونے والے ایک تعزیتی جرگے میں کیا۔
جرگے سے خطاب میں سندھ پولیس کے محکمۂ انسدادِ دہشت گردی کے سربراہ ثناء اللہ عباسی کا کہنا تھا کہ تحقیقات کے بعد یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ مقابلہ جعلی تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ تحقیقات کو مکمل طور پر غیر جانبدارانہ اور شفاف رکھا گیا ہے اور واقعے میں ملوث افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ماورائے عدالت قتل کی اجازت کسی صورت نہیں دی جاسکتی۔
ثنا اللہ عباسی پہلے پولیس افسر ہیں جنہوں نے سرکاری طور پر اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ 13 جنوری کو ہونے والا پولیس مقابلہ جعلی تھا۔
دوسری جانب وزیرِ داخلہ سندھ سہیل انور سیال کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی نقیب اللہ کے اہلِ خانہ سے تعزیت کے لیے جائیں گے اور معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔
منگل کو کیس سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں صوبائی وزیرِ داخلہ نے کہا کہ واقعے کی ایف آئی آر درج ہونے کے بعد کیس مضبوط ہوگا اور باقاعدہ تحقیقات شروع کی جاسکیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ صوبائی حکومت کسی کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔
واقعے میں ملوث پولیس افسر راؤ انوار کے پاکستان پیپلز پارٹی کے اعلیٰ رہنماؤں سے قریبی تعلقات سے متعلق ایک سوال پر سہیل انور سیال نے کہا کہ اگر کسی کا کسی سے کوئی تعلق بنتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے قتل کرنے کا لائسنس دے دیا جائے۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ نقیب اللہ محسود کے قتل کا سب سے پہلے سندھ میں برسرِ اقتدار پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے ہی نوٹس لیا تھا۔
کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں 13 جنوری کو ہونے والے اس مشکوک پولیس مقابلے میں پانچ مبینہ ملزمان مارے گئے تھے۔
ہلاک ہونے والوں میں 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود بھی شامل تھا جو سوشل میڈیا پر بھی کافی متحرک تھا۔
اس کی ہلاکت کی خبر سامنے آنے کے بعد سوشل میڈیا پر شہریوں نے کافی احتجاج کیا تھا اور مقابلے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا جس پر سندھ پولیس نے کمیٹی قائم کرکے معاملے کی تحقیقات شروع کی تھیں۔
تحقیقات کے دوران اب تک آٹھ پولیس افسران اور اہلکاروں کو معطل کیا جاچکا ہے جن میں کراچی میں مبینہ پولیس مقابلوں کے لیے مشہور ایس ایس پی ملیر راؤ انوار بھی شامل ہیں۔
راؤ انوار نے ابتداً یہ دعویٰ کیا تھا کہ نقیب اللہ محسود طالبان شدت پسندوں کا ساتھی تھا۔ تاہم راؤ انوار معاملے کی تحقیقات کرنے والی پولیس کمیٹی کے سامنے پیش ہونے سے گریزاں ہیں اور منگل کو انہوں نے مبینہ طور پر ملک سے فرار ہونے کی کوشش بھی کی تھی جسے ایف آئی اے حکام نے ناکام بنادیا تھا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ بھی اس معاملے کا نوٹس لے چکی ہے اور منگل کو چیف جسٹس ثاقب نثار نے راؤ انوار کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کا حکم دے دیا ہے۔