رسائی کے لنکس

نقیب اللہ کی' پولیس مقابلے میں ہلاکت ' پر چیف جسٹس کا از خود نوٹس


پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے کراچی میں نقیب اللہ محسود نامی شخص کی مبینہ ماورائے عدالت ہلاکت کے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبہ سند ھ کی پولیس کے سربراہ سے سات دن کے اندار رپورٹ طلب کی ہے۔

27 سالہ نقیب اللہ کو پولیس نے گزشتہ ہفتے کراچی میں ایک مبینہ پولیس مقابلے میں ہلا ک کر دیا تھا جس کا تعلق ملک کے قبائلی علاقے جنوبی وزیر ستان سے تھا ۔

کراچی پولیس کے ایک عہدیدار راؤ انوار نے 13 جنوری کو میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں چار مبینہ دہشت گردوں کو شاہ لطیف کے علاقے میں ایک پولیس مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کیا جن میں نسیم اللہ عرف نقیب اللہ بھی شامل تھا۔دوسری طرف ان کے خاندان کا دعویٰ ہے کہ نقیب اللہ 3 جنوری کو سہراب گوٹھ کے علاقے سے لاپتا ہوا جسے بعد ازاں' جعلی پولیس مقابلے' میں ہلاک کر دیا گیا ۔

پولیس کا دعویٰ ہے کہ نقیب اللہ کا تعلق بعض شدت پسندوں سے تھا جو مبینہ طور پردہشت گردی کے کارروائیوں میں ملوث تھے۔

نقیب اللہ کے خاندان کے افراد اور بعض دوست اس کے دہشت گردوں سے مبینہ تعلق کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

نقیب اللہ کی مبینہ پولیس مقابلے میں ہلاکت کی نہ صرف سماجی میڈیا پرمذمت کی جا رہی بلکہ سول سوسائٹی بھی اس واقعہ پر سخت احتجاج کرتے ہوئے اس معاملے کی غیرجانبدارانہ تحققات کا مطالبہ کررہی ہے۔

اس سلسلے میں کراچی سمیت ملک کے دیگر شہروں میں احتجاجی مظاہرے بھی ہوئے۔

اسلام آباد میں بھی جمعے کو نقیب اللہ کے مبینہ قتل کے خلاف سول سوسائٹی کا احتجاجی مظاہرہ ہوا۔

مظاہرے میں شریک قبائلی راہنما اور مسلم لیگ (کیو) کے سینئر عہدیدار اجمل خان وزیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ" اگر کوئی بندہ پکڑا بھی جاتا ہے تو اسے پولیس مقابلے میں مارنے کا کوئی جواز نہیں، ہمارا آئین اور قانون اس کی بالکل اجازت نہیں دیتا، ہمارا مطالبہ ہے کہ راؤ انوار کو معطل کیا جائے اور اس واقعہ کی سپریم کورٹ کے تحت جامع انکوئری ہو۔"

دوسری طرف نقیب اللہ کے مبینہ قتل کے واقعہ کی بازگشت پاکستان کی پارلیمان کی ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی میں بھی جمعے کو سنائی دی جہاں اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے وزارت برائے انسانی حقوق سے اس واقعہ پر رپورٹ طلب کی ہے۔

زیر حراست ملزمان کے علاوہ مشتبہ افراد کے ساتھ پولیس مقابلوں کی خبریں تواتر کے ساتھ مقامی ذرائع ابلاغ میں سامنے آتی رہتی ہیں۔

حالیہ سالوں میں ملک کے مختلف علاقوںمیں قانون نافذ کرنے والے ادارے سیکڑوں مبینہ دہشت گردوں کو پولیس مقابلوں میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کرتے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان میں سے زیادہ تر واقعات کو' جعلی پولیس مقابلے‘ قرار دیتے ہوئے ان کی مکمل چھان بین کا مطالبہ کرتی ہیں تاکہ حقائق کو سامنے لایا جا سکے۔

حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کو ملک میں دہشت گردی کی روک تھام کی کارروائیوں کے دوران بعض اوقات عسکریت پسندوں کے حملوں کے جواب میں دفاعی کارروائی کرنی پڑتی ہے جو بعض اوقات ان شدت پسندوں کے مارے جانے کا باعث بنتی ہے۔

XS
SM
MD
LG