رسائی کے لنکس

گوجرانوالہ میں خاتون کی مبینہ طور پر زہر خورانی سے ہلاکت، معاملہ ہے کیا؟


پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں خاتون کی مبینہ طور پر زہر خورانی سے ہلاکت کا معاملہ تاحال معما بنا ہوا ہے۔ پولیس نے خاتون کے سسر کو گرفتار کر لیا ہے تاہم ان کا شوہر تاحال پولیس کی گرفت میں نہیں آ سکا۔

چند روز قبل سوشل میڈیا پر کرن نامی خاتون کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جو تشویش ناک حالت میں پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کرا رہی تھیں۔ اپنی موت سے قبل کرن نے اپنے سسرال والوں پر اُنہیں زہر دینے کا الزام عائد کیا تھا۔

واضح رہے کہ پولیس نے 28 سالہ کرن شہزادی کو جوس میں زہر ملا کر پلانے کے جرم میں ان کے سسر محمد افضل کو گرفتار کیا ہے جب کہ خاوند عمیر افضل کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔

دونوں باپ بیٹے کے خلاف تھانہ ماڈل ٹاؤن میں مقدمہ درج ہے۔ملزم محمد افضل کا گوجرانوالہ سمیت مختلف اضلاع میں بیکری کی فرنچائز کا وسیع کاروبار ہے۔

خاتون کے سسر محمد افضل کی جانب سے پولیس کو ریکارڈ کرائے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ان کی بہو کرن شہزادی نے خود کشی کی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو وہ اپنی بیکری میں تھے جب کہ اُن کا بیٹا پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر گیا ہوا تھا۔

ملزم نے الزام لگایا کہ ان کی بہو جھگڑالو طبیعت کی مالک تھی اور پہلے بھی کئی بار ناراض ہوکر میکے چلی جاتی تھی جب کہ ہر بار ہم ہی اسے منا کر گھر واپس لاتے تھے۔

ہماری بچی کو قتل کیا گیا: کرن کے اہلِ خانہ کا الزام

کرن شہزادی کے اہلِ خانہ محمد افضل کے مؤقف کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کرن نے خود کشی نہیں کی بلکہ اسے قتل کیا گیا ہے۔

کرن شہزادی کی والدہ محمودہ بیگم نے وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ وہ خود جگر کے عارضے میں مبتلا ہیں اور کئی برسوں سے اُن کا علاج چل رہا ہے۔

کرن کی والدہ کا کہنا تھا کہ"پچھلے سال ڈاکٹرز نے میرے جگر کا ٹرانسپلانٹ کرانے کا کہا تو کرن نے آگے بڑھ کر اپنے جگر کا کچھ حصہ عطیہ کیا، لیکن میری زندگی بچا کر اب وہ خود منوں مٹی تلے جا سوئی ہے۔"

ان کے رشتے دار ، محلے دار اور جاننے والے ان سے بیٹی کی وفات پر اظہار افسوس کے لیے آتے ہیں تو وہ ہر آنے والے سے ایک ہی سوال کرتی ہیں کہ ان کی بیٹی کا قصور کیا تھا۔

محمودہ بیگم کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی بہادر تھی ، سب کے دکھ درد میں شریک ہوتی تھی پھر کیوں اس کے ساتھ ظلم کیا گیا ، وہ شوہر کے پہلی بیوی سے بچوں کو ماں بن کر پالتی رہی ۔ کیا کبھی بچوں نے سوتیلے پن کی شکایت کی تھی ، پھر کیوں اسے زہر پلایا گیا ؟

اُن کا کہنا تھا کہ "بیٹی نے مجھے اپنے جگر کا ٹکڑا دیا اور اب خود اپنے سارے دکھوں کو سمیٹ کر اللہ تعالیٰ کے پاس چلی گئی ہے ، میں جب تک زندہ ہوں مجھے یہی خلش رہے گی کہ کاش اس کی جگہ میں مر جاتی اور اسے کچھ نہ ہوتا۔"

کیا مرد بھی گھریلو تشدد کا شکار ہوسکتے ہیں؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:40 0:00

عمیر اور کرن ، دونوں کی دوسری شادی

محمودہ بیگم نے بتایا کہ کرن شہزادی کی پہلے شادی ہوئی لیکن خاوند کام کاج نہیں کرتا تھا جس وجہ سے ہم نے خلع لے لیا تھا۔ عمیر افضل کی بھی یہ دوسری شادی تھی جس نے پہلی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور اس کی تین بیٹیاں ہیں ، تاہم کرن کی پہلے خاوند یا عمیر سے کوئی اولاد نہیں تھی۔

انہوں نے کہا کہ "میں نے کرن کو یہی سمجھایا تھا کہ تم نے خاوند کی پہلی بیوی کے بچوں کو اپنے بچے ہی سمجھنا ہے، ان کی ماں بن کر پرورش کرنی ہے ، تب ہی تم وہاں کامیاب بیوی بن سکو گی اور خاوند اور سسرالیوں کے دل جیت سکو گی۔"

محمودہ بیگم کا کہنا تھا کہ "میں سب کو یہی نصیحت کرتی ہوں کہ کبھی لالچ نہ کریں ، بیٹیاں نصیبوں سے ہی سکون پاتی ہیں پیسوں سے نہیں، کرن نے اپنا آپ مار کر وہاں حالات سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش کی لیکن اسے بدلے میں زہر کھانے کو ملا۔"

خاتون کا نزعی بیان

کرن شہزادی نے اپنے انتقال سے کچھ گھنٹوں قبل پولیس کو بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے اپنے سسر اور خاوند پر الزام لگایا کہ دونوں نے اسے جوس میں کوئی زہریلی چیز ملا کر پلائی ہے جس سے اس کی حالت خراب ہوگئی ہے۔

خاتون کا کہنا تھا کہ "عمیر کی ماں اور بہن اکثر ناراض ہی رہتی تھیں، کبھی کسی بات پر بہن ناراض اور کبھی کسی بات پر ماں ناراض جس پر عمیر مجھ سے بدظن ہو جاتا تھا اور مجھے کہتا تھا کہ میں نے تمہیں نہیں رکھنا تم یہاں سے چلی جاؤ۔"

خاتون نے کہا کہ "کوئی شادی شدہ لڑکی اپنا گھر بچانے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہے، میں بھی وہ سب کچھ ہی کرتی رہی ہوں، ان کے پہلی بیوی سے بچے بھی سنبھالتی رہی ہوں ، نوکرانی بن کر رہی ہوں اس گھر میں۔"

جب پولیس آفیسر نے پوچھا کہ ابھی کیا واقعہ ہوا ہے تو کرن شہزادی نے جواب دیا کہ میں اپنے بھائی کی شادی پر گئی ہوئی تھی ، یہ سائیکو آدمی گھر پر لڑکیاں لاتا رہا ہے میں نے اسے کہا کہ مت ایسا کرو جس پر اس نے مجھے دھکے مار کر گھر سے نکالا۔

خاتون نے الزام لگایا کہ "آج باپ بیٹا مجھے منانے آئے تھے، سسر نے کہا کہ تم گھر آ جاؤ تم میری بیٹی ہو ، واپسی پر انہوں نے مجھے کچھ پلا دیا۔ میں نے اپنے بھائی کو فون کیا کہ انہوں نے مجھے کچھ پلا دیا ہے، میرا بھائی مجھے سول اسپتال لے کر آیا ہے اور ڈاکٹروں نے مجھے جواب دے دیا ہے کہ تمہیں گولیاں کھلا دی گئی ہیں۔"

'سوچا تھا کہ بہن کی شادی اچھے گھر میں ہوئی ہے اس کی زندگی سنور جائے گی'

وائس آف امریکہ سے بات چیت کرتے ہوئے کرن کے بھائی عدنان اسلم نے بتایا کہ وہ سات بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ کرن ساتویں نمبر پر تھی جب کہ اس سے چھوٹے دو بھائی ہیں۔ والد کویت میں کام کاج کرتے تھے جن کا چھ سال قبل انتقال ہوگیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ہم لالچی لوگ نہیں لیکن جب کرن کے لیے عمیر افضل کا رشتہ آیا تو ہم لوگ بہت خوش تھے کہ ہماری بہن کی سنی گئی کیوں کہ پہلے خاوند نے بھی بہت دکھ دیے تھے تو ہمارا خیال تھا کہ ہماری بہن امیر گھرانے میں جائے گی تو اس کی زندگی سنور جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ عمیر اور اس کے والد بااثر لوگ ہیں ، ان کی بیکری کی متعدد فرنچائز ہیں، اس کے علاؤہ بھی کئی کاروبار ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کو انصاف نہیں ملے گا کیوں کہ عمیر نے وکالت کی ڈگری بھی حاصل کی ہوئی ہے اور وہ قانون کی باریکیوں کو سمجھتا ہے۔

'اگر کسی اور ملک میں یہ ہوتا تو اقتدار کے ایوان ہل جاتے'

انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکن ثریا منظور کہتی ہیں کہ خواتین کے خلاف جرائم میں اضافہ معاشرتی سوچ کی عکاسی کرتا ہے ، آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن اور 25 نومبر کو خواتین پر تشدد کے خاتمے کا عالمی دن منایا جاتا ہے لیکن نہ تشدد رکا اور نہ ہی خواتین کو حقوق ملے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ " کرن شہزادی کا واقعہ رونگٹے کھڑے کردینے والا ہے ، ایک لڑکی جسے پتا ہے کہ اس نے کچھ گھنٹوں بعد فوت ہو جانا ہے وہ کس قدر بے بسی سے اپنا بیان ریکارڈ کروا رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ مجھے انصاف دیا جائے۔ اگر یہ واقعہ کسی مہذب ملک میں ہوا ہوتا تو اقتدار کے ایوان ہل جاتے اور ملک کا چیف جسٹس نوٹس لیتا۔"

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں گھریلو تشدد کو گھر کی بات کہہ کر ختم کردیا جاتا ہے، اگر اس حوالے سے کوئی اتھارٹی بنائی جائے اور گھریلو تشدد کے کیسوں کا فیصلہ سالوں کی بجائے ہفتوں میں ہو تو ہی کرن شہزادی جیسے واقعات میں کمی آسکتی ہے۔

گوجرانوالہ کے سٹی پولیس آفیسر محمد ایاز سلیم کہتے ہیں کہ کرن شہزادی کی ہلاکت کی تمام پہلوؤں پر تفتیش جاری ہے اور فی الحال اس بارے کوئی حتمی رائے نہیں دی جاسکتی۔

انہوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ ، موبائل فونز کی لوکیشن اور سی سی ٹی وی فوٹیجز سے کیس کے محرکات سامنے آجائیں گے ، پولیس کی مختلف ٹیمیں اس بارے میں تحقیقات کررہی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ زیرحراست ملزم محمد افضل کو تھانے میں پروٹوکول دینے کی شکایت سامنے آنے پر تھانہ ماڈل ٹاؤن کے تین اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے جب کہ مرکزی ملزم عمیر کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں۔

'نزعی بیان ٹھوس شہادت ہے'

ڈسٹرکٹ بار کے سابق عہدے دار شاہد اسلام ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ نزعی بیان ٹھوس شہادت کی حیثیت رکھتا ہے تاہم اس کے لیے ضروری ہے کہ اس بارے میں تمام قانونی تقاضے پورے کیے گئے ہوں۔

اُن کا کہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ نے نزعی بیان کے حوالے سے جو معیار مقرر کیا ہے اس کے تحت کوئی ذمے دار پولیس افسر ہی یہ بیان ریکارڈ کر سکتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ نزعی بیان کی روشنی میں پولیس بیان دینے والے کو مدعی بنا سکتی ہے اور اگر وہ فوت ہو جائے تو سپریم کورٹ تک وہ بیان مصدقہ شہادت تصور ہوگا۔

XS
SM
MD
LG