علامہ جمیل مظہری کو ساری زندگی اس بات کا قلق رہا کہ انہیں نہیں پہچانا گیا اور ان کی شناخت کوئی نہیں کر سکا ۔ اسی لئے انہوں نے خود ایک شعر میں کہا
اسے بلاﺅ زباں داں جو مظہری کا ہو
مگر ہے شرط وہ اکیسویں صدی کا ہو
شاید انہیں اس بات کا احساس تھا کہ بیسویں صدی میں ان کی شناخت نہیں ہو سکے گی اور ممکن ہے اکیسویں صدی میں ان کے ا فکا ر کی قدر کی جائے ۔ شاید اب اس کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے گزشتہ ماہ لندن میں ان کے فکر و فن پر ایک بین الاقوامی سیمنار کا انعقاد ہوا اور چند سال قبل کراچی ( پاکستان ) میں بھی ایک بین الاقوامی سیمنار منعقد کر کے ان کے شعری مرتبے کی شناخت کرنے کی کوشش کی گئی تھی ۔ ایک طرح سے اکیسویں صدی میں جمیل مظہری کے تفکرات کو پہچانا جا رہا ہے ۔
حالانکہ علامہ جمیل مظہری نے کئی ایسے اشعار کہے جن کی حیثیت آفاقی ہے ۔ ان کا ایک شعر تو اتنا مشہور ہے کہ وہ خو د اس کے بارے میںکہا کرتے تھے کہ یہ شعر شاعر سے زیادہ مشہور ہے ۔
بقدر پیمانہ¿ تخیل سرور ہر دل میں ہے خودی کا
نہ ہو اگر یہ فریب پیہم تو دم نکل جائے آدمی کا
کچھ ناقدین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر اس شعر کے علاوہ وہ کوئی دوسرا شعر نہ بھی کہتے تو ان کا نا م اردو شاعری میں زندہ رہتا ۔ مشہور ناقد شمس الرحمن فاروقی کہتے ہیں
” میں سمجھتا ہوں کہ جمیل مظہری کو نہ صرف اپنے زمانے میں بلکہ آج تک ان کا صحیح ادبی مقام نہ مل سکا اور انہیں جو انتظار رہا اور شاید اب بھی ہے کہ ان کے مرتبے کا تعین صحیح معنی میں کیا جائے تو اس کا ایک سبب یہ بھی ہے “
علامہ جمیل مظہری کی شاعری کی شناخت ان کا تفکر ہے ۔ کیونکہ وہ ایک مفکر شاعر تھے ۔ مفکر تشکیک کا شکار ہوتا ہے اس لئے ان کی شاعری بھی تشکیک کا شکار نظر آتی ہے ۔ وہ خود بھی کہتے ہیں
” میں خود پسندی یا خود ستائی کا مجرم کبھی نہیں رہا ۔ مجھ میں ایک طرح کا انکسار ہے ۔ لیکن احساس کمتری شاید یہ غرور کی پیداوار ہے ۔ “
اس مفکر شاعر کی یاد میں ان کے چند اشعار یہاں پر پیش کئے جا رہے ہیں ۔
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی
صد چاک ہوا گو جامہ ¿ تن مجبوری تھی سینا ہی پڑا
مرنے کا وقت مقرر تھا مرنے کے لئے جینا ہی پڑا
نہ فروغ حسن ہے مضمحل نہ مزاج عشق ہے معتدل
وہی ایک شورش آب و گل کہیں سوز میں کہیں ساز میں
چہرے کی سیاہی دھو دیجئے آئینوں پہ غصہ مت کیجئے
آئینے تو سچ ہی بولیں گے آئینے کو جھوٹا کون کرے
اضطراب خود نمائی کو حیا سمجھا تھا میں
وہ نگاہ ناز کیا کہتی تھی کیا سمجھا تھا میں
خرد انہیں سے بناتی ہے رہبری کا مزاج
یہ تجربے جو میسر ہیں گمرہی سے مجھے
جنون نے بھی نہ چھینی یہ متاع زندگی میری
خودی کا اضطراب منفعل ہے زندگی میری
چلمن کبھی کبھی تو اٹھایا کرے کوئی
کچھ احترام دیدہ¿ بینا کرے کوئی
تمہاری جوہر شناسائیوں نے دیا تھا مجھ کو غم محبت
ہماری وسعت پسندیوں نے بنایا اس کو غم زمانہ
تصور رنگ و بو بھی بدلا طبیعت آب و گل بھی بدلی
فسانہ¿ بننے لگے حقیقت حقیقتیں بن گئیں فسانہ
نہ سیاہی کے ہیں دشمن نہ سفیدی کے ہیں دوست
ہم کو آئینہ دکھانا ہے دکھا دیتے ہیں
علامہ جمیل مظہری جن کا اصل نام سید کاظم علی تھا یکم جنوری سنہ 1905 کو پٹنہ کے محلہ مغل پورہ میں پیدا ہوئے تھے ۔ انہوں نے تعلیم پٹنہ کے علاوہ کلکتہ میں حاصل کی اور تلاش معاش میں کلکتہ کی خاک چھانی پھر پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ¿ اردو سے وابستہ ہوئے اور وہیں سے سبکدوش ہوئے ۔ 23 جولائی سنہ 1980 کو مظفر پور کے موضع بھیکن پور میں وفات پائی ۔
جمیل مظہری بنیادی طور پر نظموں کے شاعر ہیں لیکن وہاں بھی تغزل نے ان کا پیچھا نہیں چھوڑا ہے اسی لئے ان کی غزلوں میں بھی تشکیک کا غبار نظر آتا ہے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے کافی تعداد میں مرثیے بھی لکھے ۔ ان کے شعری مجموعے ’عکس جمیل ‘٬’ فکر جمیل اور’ عرفان جمیل ‘ کے نام سے شائع ہوئے تھے ۔