سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں انکشاف ہوا ہے کہ ملک بھر کے ائیرپورٹس پر بیرون ملک جانے سے روکنے والی ’ایگزٹ کنٹرول لسٹ‘، ’بلیک لسٹ‘ اور ’واچ لسٹ‘ کے بعد ایک اور لسٹ متعارف کروا دی گئی ہے، جس کا نام ’پی این آئی ایل‘ ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کا مصطفیٰ نواز کھوکھر کی صدارت میں اجلاس ہوا جس میں انفرادی شخصیات کے نام ’اِی سی ایل‘ میں ڈالنے سے متعلق وزارت داخلہ کی طرف سے بریفنگ دی گئی۔ اجلاس میں قومی اسمبلی کے دو ارکان محسن داوڑ اور علی وزیر نے بھی شرکت کی جن کو بیرون ملک جانے سے روک دیا گیا تھا۔
کمیٹی چئیرمین، مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ’’لوگوں کے نام اِی سی ایل میں ڈالے جا رہے ہیں۔ اِی سی ایل کے بعد کوئی ’واچ لسٹ‘ اور ’بلیک لسٹ‘ پر بھی موجود ہے۔ قومی اسمبلی کے ممبران کے نام اِی سی ایل پر ڈال دیے گئے۔ حمزہ شہباز، محسن داوڑ او ر علی وزیر کا نام بھی اِی سی ایل پر ڈال دیا گیا‘‘۔
وزارت داخلہ کے حکام نے بتایا ہے کہ ’’اِی سی ایل میں نام عدالتوں کے کہنے پر اور کابینہ کی منظوری سے ڈالے جاتے ہیں۔ ہمارے ریکارڈ کے مطابق، حمزہ شہباز کا نام اِی سی ایل پر نہیں ہے۔ حمزہ شہباز کو کیوں روکا گیا، چیک کرکے ہی بتایا جا سکتا ہے۔‘‘
وزارت داخلہ کے حکام نے بتایا کہ ’’محسن داوڑ اور علی وزیر کا نام بھی اِی سی ایل پر نہیں۔ ایف آئی اے نے محسن داوڑ اور علی وزیر کا نام ’پی این آئی ایل‘ لسٹ میں ڈالا ہے۔ پی این آئی ایل لسٹ میں نام عارضی طور پر ڈالے جاتے ہیں۔ یہ لسٹ ہے کیا اور یہ کیسے کام کرتی ہے؟ اس حوالے سے، ڈی جی ’ایف آئی اے‘ بہتر بتا سکتے ہیں‘‘۔
اجلاس میں شریک رکن اسمبلی محسن داوڑ نے کہا کہ ’’یہاں اندھیر نگری ہے اور اپنی مرضی سے لوگوں کے نام اِی سی ایل میں ڈالے جا رہے ہیں‘‘۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل پی ٹی ایم کی گلالئی اسماعیل کی گرفتاری کے وقت کہا گیا تھا کہ ان کا نام ’آئی ایس آئی‘ کے کہنے پر اِی سی ایل میں شامل کیا گیا۔ لیکن، ہماری دفعہ آئی جی خیبرپختونخواہ کا نام لیا گیا۔ لیکن، انہیں اس حوالے سے کوئی معلومات نہیں تھی۔
کمیٹی چئیرمین مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا کہ ’’وزارت داخلہ نام اِی سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے کمیٹی کو مطمئن نہیں کر سکی۔ لہذا، 17 دسمبر کو ڈی جی، ایف آئی اے اور آئی جی خیبر پختونخوا کمیٹی میں حاضر ہو کر جواب دیں‘‘۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی انسانی حقوق نے گمشدگیوں سے متعلق بل کے معاملے پر بھی غور کیا۔
شیریں مزاری نے کہا کہ ’’جمہوریت میں جبری گمشدگیوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ قانون میں تبدیلی لاکر اس معاملے کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ ہم مسنگ پرسنز کی لسٹ منگوا رہے ہیں۔ آئندہ دو ہفتوں میں جبری گمشدگیوں کے حوالے سے اہم اجلاس ہوگا۔ جو لوگ 10 سے 15 سال سے غائب ہیں انکے، خاندان کو آگاہ کرنا چاہیے۔ اگر کسی کو اٹھانا ہے تو مقدمہ درج کریں اور پیش کریں‘‘۔