امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی، عالمی ادارہ صحت اور سیو دی چلڈرن نامی فلاحی تنظیم کے محققین کی تیار کردہ رپورٹ کے مطابق نمونیا کا مرض ہر سال پاکستان میں ایک لاکھ بچوں کو موت کی نیند سلا دیتا ہے۔
ان محققین کا کہنا ہے کہ اگر لیڈی ہلیتھ ورکز کے سرکاری نیٹ ورک کو چند روز کی مخصوص تربیت فراہم کر کے انھیں ناگزیر ادویات سے لیس کر دیا جائے تو ان اموات کی شرح میں غیر معمولی کمی کی جا سکتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صوبہ خیبر پختون خواہ کے ضلع ہری پور میں محکمہ صحت کی خواتین کارکنوں کی مدد سے تین ہزار ایسے بچوں کا علاج کیا گیا جو نمونیا کے مرض میں مبتلا تھے اور ان میں سے91 فیصد متاثرہ بچے صحت یاب ہو گئے۔
عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ کے ایک سینیئر عہدیدار ڈاکٹر شمیم قاضی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاکستان میں لگ بھگ 90 ہزار لیڈی ہیلتھ ورکرز صحت کی بنیادی سہولتیں فراہم کر رہی ہیں اور اگر انھیں نمونیا کے علاج سے متعلق چند دن کی تربیت فراہم کر کے اس مرض کے خلاف کارگر دوا فراہم کر دی جائے تو ہزاروں بچوں کی جانوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
’’شدید نمونیا کے لیے ایک اچھی دوا دستیاب ہے جسے ایموکسوسلین (amoxicillin) کہتے ہیں۔ ہمارے ملک میں جو لیڈی ہیلتھ ورکز ہیں وہ اتنی صلاحیت رکھتی ہیں کہ اگر ان کو تربیت دی جائے اور دوائی فراہم کر دی جائے تو وہ شدید نمونیے کا علاج بھی اپنے گاؤں میں کر سکتی ہیں۔‘‘
ڈاکٹر شمیم قاضی کا کہنا ہے کہ دور دراز علاقوں میں نمونیا سے متاثرہ 95 فیصد بچوں کا علاج ان کے گھروں میں ہی پلانے والی جراثیم کش دوائی سے ممکن ہے اور اس کے لیے اسپتال یا کسی طبی مرکز جانے کی ضرورت نہیں۔