امریکی خلائی تحقیق کاروں نے بتایا ہے کہ ’نیو ہورائزن پروب‘ نے تصاوریر بھیجنا شروع کردی ہیں، جوں جوں وہ مرحلہ وار پلوٹو کے قریب آتا جا رہا ہے۔ تحقیق کاروں نے اُسے ’حیران کُن‘ اور ’مزیدار‘ تجربہ قرار دیا ہے۔
پلوٹو نظام شمسی کا سب سے چھوٹا اور بعید ترین سیارہ ہے۔
پروب کی خلائی گاڑی منگل کو پلوٹو کے قریب ترین سے گزرے گی، جب وہ اُس کی سطح سے تقریباً 12500 کلومیٹرکے فاصلے پر ہوگی۔
تاہم، ’نیو ہیرائزن‘ کی اب تک کی کارکردگی پر سائنس دانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے، جسے اُنھوں نے پلوٹو کے سیارے کا ایک بالکل ہی مختلف منظر بتایا ہے۔
ناسا کے جان اسپینسر نے ہفتے کے روز بتایا کہ، ’درحقیقت جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں وہ حیران کُن بات ہے‘۔
بقول اُن کے، ’ہمیں حیران کُن سیاہ اور سفید نقش و نگار دکھ رہے ہیں۔ ہمیں اندازہ نہیں کہ یہ سب کچھ کیا ہے۔ ہم بہت سے گول دائرے دیکھتے ہیں، جن کے بارے میں گمان ہے کہ یہ نشیبی مقامات ہیں یا پھر کوئی اور چیز ہے۔۔۔ اِن کے بارے میں رائے زنی کرتے ہوئے، ہمیں بہت اچھا لگ رہا ہے‘۔
پلوٹو زمین سے 4.8 ارب کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر ہے۔
ناسا نے سنہ 2006 میں ’نیو ہورائزن‘ روانہ کیا تھا، جس سے کچھ ہی روز قبل ’انٹرنیشنل ایسٹرونومیکل یونین‘ نے پلوٹو کو ’بونا‘ سیارہ قرار دیا۔
یونین نے کہا تھا کہ پلوٹو نظام شمسی سے باہر دیگر سیاروں سے دور والے جھرمٹ کی وسعتوں میں ہے، جنھیں ’کوئپر بیلٹ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ دیگر فلکیات داں پلوٹو کو ایک مکمل سیارہ قرار دیتے ہیں۔
ناسا کے سائنس داں کہتے ہیں کہ 'کوئپر بیلٹ' کی یہ پہلی قریبی تسخیر اُنھیں اِس قابل بنائے گی کہ وہ جان سکیں کہ جب نظام شمسی تشکیل پا رہا تھا، اُس وقت نظام کی صورت کیا تھی، اور ممکنہ طور پر اِس بات کی بھی زیادہ بہتر پرکھ ہو سکے آیا زمین پر زندگی کا وجود کیسے عمل میں آیا ہوگا۔