رسائی کے لنکس

کراچی پولیس کو پلاسٹک کے انڈے بیچنے والوں کی تلاش


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں پولیس ایسے انڈوں کو تیار کر کے بیچنے والوں کا سراغ لگانے میں مصروف ہے جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ پلاسٹک کے بنے ہوئے ہیں۔

پولیس نے مبینہ طور پر پلاسٹک سے تیار کئے گئے انڈے سپلائی اور بیچنے کے الزام میں اب تک چار افراد کو گرفتار کیا ہے جن سے تفتیش جاری ہے۔

کراچی پولیس نے ایک شہری کی درخواست پر جعلی انڈوں کے خلاف کارروائی کی۔ شہری کے مطابق ڈیفینس کے علاقے خیابان سحر میں واقع ایک دکان سے خریدے گئے انڈے، ابالنے پر پلاسٹک یا جیلی کی طرح بن گئے تھے۔

اطلاع ملنے پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے ملزمان کے خلاف ملاوٹ شدہ اشیاء کی تیاری پر مقدمہ درج کر لیا ہے جب کہ سندھ فوڈ اتھارٹی کو بھی اس شکایت سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔

سندھ فوڈ اتھارٹی کے انسپکٹرز نے جب سپلائر کی جانب سے فراہم کردہ مزید انڈے چیک کیے تو انہیں شک ہوا کہ یہ انڈے اصلی انڈوں سے کچھ مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ انڈے سندھ کے ضلع ٹھٹھہ کے علاقے گھارو سے سپلائی ہوتے ہیں۔

سندھ فوڈ اتھارٹی کے انسپکٹرز کو شک ہوا کہ یہ انڈے اصلی انڈوں سے کچھ مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)
سندھ فوڈ اتھارٹی کے انسپکٹرز کو شک ہوا کہ یہ انڈے اصلی انڈوں سے کچھ مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ (فائل فوٹو)

پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد پاکستان پینل کوڈ کی دفعات 272 اور 270 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے جس کے تحت غذائی اشیاء میں کسی مضر صحت چیز کی ملاوٹ کرنے کا جرم ثابت ہونے پر ملزمان کو چھ ماہ قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

سندھ فوڈ اتھارٹی کی ڈپٹی ڈائریکٹر سمیرا حسین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اتھارٹی نے دکان اور سپلائر سے حاصل کیے گئے انڈوں کے سیمپلز حاصل کر کے کیمیائی تجزیے کے لیے لیبارٹری بھجوا دیے ہیں۔ جس دکان سے انڈے ملے ہیں، اسے بھی سیل کر دیا گیا ہے۔

فوڈ اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ اس بارے میں وثوق سے کوئی بات نہیں کی جا سکتی کہ یہ انڈے واقعی پلاسٹک سے تیار کردہ ہیں بھی یا نہیں۔

یہ خیال بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ انڈے زیادہ عرصے تک جما کر رکھے گئے ہوں گے تاکہ مہنگا ہونے پر ان سے زیادہ منافع کمایا جاسکے۔ تاہم کوئی بھی بات وثوق سے تبھی کہی جاسکے گی جب اس سے متعلق کیمیائی رپورٹ آئے گی جس میں ایک ہفتے کا وقت لگ سکتا ہے۔

فوڈ اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ اس بارے میں وثوق سے کوئی بات نہیں کی جا سکتی کہ یہ انڈے واقعی پلاسٹک سے تیار کردہ ہیں بھی یا نہیں۔ (فائل فوٹو)
فوڈ اتھارٹی کے حکام کا کہنا ہے کہ اس بارے میں وثوق سے کوئی بات نہیں کی جا سکتی کہ یہ انڈے واقعی پلاسٹک سے تیار کردہ ہیں بھی یا نہیں۔ (فائل فوٹو)

اصلی اور نقلی انڈوں کو کیسے پہچانا جائے؟

ماہرین کے مطابق بھارت اور چین میں نقلی انڈے تیار کرکے انہیں مارکیٹ میں فروخت کیا جاتا رہا ہے لیکن پاکستان میں ابھی تک کوئی ایسا کیس سامنے نہیں آیا۔

غذائی سائنس کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نقلی انڈوں میں زردی اور اس کی سفیدی آپس میں مل جاتی ہے جب کہ اس کے برعکس اصلی انڈوں میں زردی اور سفیدی الگ الگ رہتے ہیں۔

اسی طرح اصلی انڈے کے مقابلے میں نقلی انڈے کی بیرونی جلد کافی سخت ہوتی ہے اور دیکھنے میں بھی یہ فرق نظر آسکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق نقلی انڈوں کے خول کی تیاری میں کیلشیئم کاربونیٹ استعمال کیا جاتا ہے جب کہ اس کی زردی اور سفیدی میں فوڈ کلر، جپسم پاؤڈر، پیرا فین ویکس، سوڈیم، پانی اور دیگر اشیاء استعمال کی جاتی ہیں۔

کیا پلاسٹک کھانے میں استعمال ہو سکتی ہے؟

پلاسٹک پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والی جامعہ کراچی کی اسسٹنٹ
پروفیسر ڈاکٹر انجم نواب کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں ’ایڈیبل پلاسٹک‘ پر کام ہو رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی اشیاء جس کے اجزاء کھانے کے قابل ہوں، ان کی ریپنگ یوں کی جائے جسے پلاسٹک کے ساتھ کھایا جاسکے۔

ان کے بقول کھانے کے قابل پلاسٹک کو صرف غذائی اشیاء کی چادر کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے جو مختلف قسم کی ٹافیوں یا پھلوں پر استعمال ہو سکتی ہے جو اس کی تازگی کو لمبے عرصے کے لیے برقرار رکھ سکتی ہے۔ لیکن ان کے مطابق فی الحال پلاسٹک کے استعمال سے کھانے کے قابل کوئی چیز تیار کرنا ممکن نہیں ہوا ہے۔

ڈاکٹر انجم نے کہا کہ اس بارے میں پہلے بھی بہت سی چیزیں سامنے آئی تھیں کہ پلاسٹک سے تیار کردہ چاول یا دیگر اشیاء تیار کی جارہی ہیں لیکن حقیقت میں نہ تو یہ قدرتی غذا کے متبادل کے طور پر تیار کی جارہی ہیں اور نہ ہی ابھی تک یہ ممکن ہوا ہے۔

پلاسٹک کے انڈوں کے انکشاف پر ڈاکٹر انجم نواب کا کہنا تھا کہ سائنسی طور پر تو یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا لیکن یقیناً یہ ملاوٹ شدہ اشیاء سے تیار کردہ کوئی جعلی مصنوعات ہو سکتی ہے جس کی تحقیق ہونا ضروری ہے۔

ڈاکٹر انجم وہاب کے مطابق عام پلاسٹک پیٹروکیمیل یا پیٹرولیم کی ذیلی مصنوعات میں شمار ہوتی ہے۔ اور وہ یقیناً انسانی استعمال کے لیے زہریلی ہے اور کسی صورت کھانے کے قابل نہیں ہے۔

پلاسٹک آلودگی سے انسانوں کے ساتھ آبی زندگی بھی بے حد متاثر ہورہی
ہے۔ آبی آلودگی پر کام کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ پلاسٹک آبی آلودگی پھیلانے کا بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔

فوٹولیزس (سورج کی روشنی سے ہونے والے کیمیائی عمل) سے گزرنے کے بعد بھی پلاسٹک میں شکست و ریخت نہیں ہوتی اور اپنی اصل حالت میں بحال رہتی ہے جب کہ ڈسپوزیبل پلاسٹک کا بڑھتا ہوا استعمال ایک نیا چیلنج بن کر سامنے آ گیا ہے۔

ماہرین کے مطابق پلاسٹک کی آلودگی ایک گھمبیر مسئلہ بن چکا ہے جو لوگوں کو براہ راست متاثر کر رہا ہے۔ جس کے حل کے لیے پالیسی اور کمیونٹی لیول پر مربوط حکمت عملی کے ساتھ کام کی اشد ضرورت ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG