پاکستان میں نام نہاد روحانی علاج کرنے والوں اور جعلی پیروں سے شہریوں کو پیش آنے والے ناخوشگوار واقعات کوئی نئی بات نہیں لیکن رواں ماہ کے اوائل میں پنجاب کے ضلع سرگودھا میں مبینہ طور پر ایک درگاہ کے متولی اور اس کے حواریوں کے ہاتھوں 20 افراد کے قتل کے واقعے سے پورے ملک میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات کی وجہ معاشرے میں بعض افراد کی قدامت پسند سوچ کے علاوہ بظاہر ایسے عاملوں تک آسان رسائی ہے جس کے تدارک کے لیے مناسب قانون سازی اور انتظامی اقدام کی ضرورت ہے۔
سرگودھا میں پیش آنے والے واقعے کے بعد ایک سینیئر قانون دان ڈاکٹر محمد اسلم خاکی نے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت سے استدعا کی ہے کہ وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا اس بات کا پابند کرے کہ وہ نام نہاد روحانی عاملوں کو کسی ضابطہ کار کے تحت لانے کے لئے مناسب طریقہ کار وضع کریں۔
سپریم کورٹ کے سیل برائے انسانی حقوق میں درخواست جمع کروانے والے ڈاکٹر اسلم خاکی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ " ہم دیکھتے ہیں کہ جعلی پیر اور عامل ایسے ٹونے کرتے ہیں جن سے لوگوں کی جانوں کو بھی خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ۔ جنات نکالنے کے لئے وہ اپنے مریضوں پر تشدد کرتے تھے اس کی وجہ سے بعض لوگ ان کا نشانہ بنتے ہیں اور یہ لوگ ان معاملات کے بارے میں آگاہی نا ہونے کی وجہ سے اس بارے بات بھی نہیں کرتے ہیں۔ "
معروف مذہبی دانشور ڈاکٹر راغب حسین نعیمی بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ ایسے افراد کو ایک ضابطہ کار میں لانا از حد ضروری ہے۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "حکومت جس طرح مدارس اور مساجد کی جیو ٹیگنگ کر چکی ہے اسی طرح ان خانقاہوں کی بھی جیو ٹینگنک کر ے خانقاہوں میں موجود پیر یا جعلی عامل جو کوئی بھی ہو ان کی شناخت کی جائے ان کی تعلیم کے بارے میں پوچھا جائے پھر ایک ادارہ ہو جو ان لوگوں کا اندراج کرے جو اس کے میعار پر پورا اتریں۔"
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ ملک میں نفسیاتی عوراض میں مبتلا ہونے والے افراد میں اضافہ ہورہا ہے تاہم اس مرض کے بارے میں مناسب آگاہی نا ہونے کی وجہ سے وہ جعلی پیر اور عاملوں کے استحصال کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
اسلام آباد کے سب سے بڑے سرکاری اسپتال پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کے شعبہ ذہنی امراض کے سربراہ ڈاکٹر رضوان تاج نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ذہنی پیچیدگیوں سے ناواقفیت کے باعث لوگ ایسے عاملوں کے پاس جاتے ہیں۔
"وہ اس بات سے آگاہ نہیں ہے وہ اس کو جادو ٹونے اور نظر کا مسئلہ سمجھتے ہیں اس لئے وہ ان لوگوں کے پاس جاتے ہیں اسی لیے جب ان لوگوں کو جعلی پیروں سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا پھر وہ ہمارے پاس آتے ہیں۔۔۔اس بارے میں لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے ضروری ہے جو معاشرے میں بہت کم ہے اور اسی وجہ سے یہ لوگ لوگ زیادہ سرگرم ہیں۔"
سرگودھا کی درگاہ پر پیش آنے والے واقعے کے بعد پنجاب حکومت میں شامل بعض عہدیداروں نے بھی کہا تھا کہ ایسے معاملات سے متعلق جہاں انتظامی اقدام ضروری ہیں وہیں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے مذہبی و سماجی راہنماؤں اور ذرائع ابلاغ کو بھرپور کردار ادا کرنا چاہیے۔