ایک عرصے تک دہشت گردی و انتہا پسندی سے بری طرح متاثر رہنے والے صوبہ خیبرپختونخواہ میں اب حالات ماضی کی نسبت قدرے بہتر ہو چکے ہیں لیکن مرکزی شہر پشاور کے مضافاتی علاقوں کے باسی ایک اور طرح کے خوف میں مبتلا ہیں۔
چند سال پہلے تک مضافاتی علاقہ متنئی سخت گیر نظریات رکھنے والے عناصر بشمول عسکریت پسندوں کے نشانے پر رہا جو یہاں خاص طور پر موسیقی کو غیر اسلامی قرار دے کر لوگوں کو جبراً اس سے باز رہنے کی تلقین کرتے رہے۔
لیکن عسکریت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں سے یہ انتہا پسند عناصر تو اب یہاں پہلے کی طرح موجود نہیں ہیں لیکن اب بھی یہاں خاص طور پر شادی کی تقریبات میں موسیقی کا استعمال کرتے ہوئے لوگ ڈرتے ہیں جس کی وجہ پولیس کی طرف سے ایسی تقریبات پر پڑنے والے چھاپے اور لوگوں کی گرفتاریاں بتائی جاتی ہیں۔
متنئی کے ایک رہائشی عبدالقادر نے صورتحال سے متعلق وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں یہاں کے لوگ خوف کے سائے میں زندگی گزارتے رہے لیکن اب بھی حالات ایسے نہیں کہ لوگ خود کو بے خوف تصور کریں۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ خاص طور پر امن کمیٹیوں میں ایسے لوگ شامل ہیں جو غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث رہے اور پولیس ان کی ایما پر ہی کارروائیاں کرتی ہے۔
"چور اور لٹیرے شامل ہو گئے ہیں وہ لوگ طرح طرح کی من مانیاں کرتے ہیں اور اگر ان کی بات نہ مانیں تو وہ پولیس کو اطلاع کرتے ہیں پولیس چھاپا مارتی ہے شادیوں میں یا کوئی موسیقی کا پروگرام ہو اس کو بند کر دیتی ہے۔ جب پولیس سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ اسے لاؤڈ اسپیکر ایکٹ میں شامل کرتے ہوئے کہتی ہے کہ عوام کی شکایت ہے آئی ہے۔"
عبدالقادر بتاتے ہیں کہ ان علاقوں کے زیادہ تر نوجوان عرب ممالک میں نہایت قلیل آمدن پر مزدوری کرتے ہیں اور جب کبھی وطن واپس آتے ہیں تو ان کے لیے یہی موقع ہوتا ہے کہ وہ کسی تقریب میں موسیقی کا استعمال کرتے ہوئے خوشیاں منائیں۔
"زیادہ تر ہمارے لوگ جو (دوسرے ملکوں میں) مزدوری کرتے ہیں جب وہ گھروں کو واپس آتے ہیں شادیوں وغیرہ پر تو اس وقت یہ پروگرام ہوتے ہیں کیونکہ بہت کم وقت ملتا ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ کوئی شادی نہ کوئی فوتگی ہو۔ پولیس چھاپا مارتی ہے تو اس کے خوف سے وہ لوگ خوشی بھی نہیں مناتے۔"
عبدالقادر کی بیان کردہ صورتحال کے بارے میں جب پشاور پولیس سے رابطہ کیا گیا تو حکام نے صورتحال کی اس سنگینی کو یکسر مسترد کیا۔
سینیئرسپریٹنڈنٹ پشاور پولیس شوکت خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ کمیٹیوں میں شامل افراد کسی طور بھی غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہیں بلکہ یہ علاقے کے لوگوں کو درپیش پریشانیوں سے متعلق پولیس کو آگاہ کرتے ہیں جس پر وہ کارروائی کرتی ہے۔
"جو آلات موسیقی ہیں وہ اتنی بلند آواز میں چلاتے ہیں کہ اس سے دوسرے لوگوں کی آزادی صلب ہوتی ہے ہم نے ان سے کہا ہے کہ اگر آپ دائرے کے اندر رہتے ہوئے یا ہجرے کے اندر اتنی آواز میں چلائیں کہ صرف وہیں یہ سنائی دے لیکن اگر اس سے دوسرے لوگ پریشان ہوتے ہیں تو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔"
تاہم عبدالقادر کا کہنا تھا کہ اگر اس ضمن میں کوئی شکایت ہو تو گاؤں کے بڑے بزرگ لوگوں کو اس سے آگاہ کر کے مسئلے کو حل کر سکتے ہیں بجائے اس کے کہ لوگوں کو تھانوں میں بند کر کے خوف کی فضا پیدا کی جائے۔