اسلام آباد، پشاور —
پاکستان کے صوبہ خیبر پختو نخواہ کے دارالحکومت پشاور میں پیر کو ایک خودکش بم حملے میں افغان قونصل خانے کے دو اہلکاروں سمیت کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور 60 سے زائد زخمی ہو گئے۔
پولیس کے مطابق خودکش بمبار موٹر سائیکل پر سوار تھا اور اُس نے پشاور میں یونیورسٹی روڈ کے علاقے میں ایک بس اسٹاپ کے قریب دھماکا کیا۔
ہلاک ہونے والے افراد میں افغانستان کی اعلٰی افغان امن کونسل کے رکن قاضی امین وقاد کا بیٹا قاضی ہلال اور ایک دوسرا رشتہ دار بھی شامل ہے۔
یہ دونوں افغان شہری پشاور میں افغانستان کے قونصل خانے کے ملازم تھے، لیکن اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔
زخمی ہونے والے 60 سے زائد افراد میں سے کم از کم تین پولیس اہلکار ہیں۔
پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے فوری طور پر جائے وقوع کو گھیرے میں لے کر زخمی افراد کو اسپتالوں میں منتقل کیا۔
پشاور کی جس شاہراہ پر دھماکا ہوا اُسے کچھ دیر کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
اتوار کو بھی صوبہ خیبر پختونخواہ کے دو مختلف علاقوں میں انتخابات میں حصہ لینے والے ایک اُمیدوار اور ایک سیاسی جماعت کے دفتر کے قریب بم دھماکوں میں کم از کم 11 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
11 مئی کے عام انتخابات سے قبل دہشت گردوں کے حملوں میں تیزی آئی ہے اور بعض سیاسی جماعتوں نے سلامتی کے خدشات کے باعث اپنی انتخابی مہم کو بھی محدود کر رکھا ہے۔
پولیس کے مطابق خودکش بمبار موٹر سائیکل پر سوار تھا اور اُس نے پشاور میں یونیورسٹی روڈ کے علاقے میں ایک بس اسٹاپ کے قریب دھماکا کیا۔
ہلاک ہونے والے افراد میں افغانستان کی اعلٰی افغان امن کونسل کے رکن قاضی امین وقاد کا بیٹا قاضی ہلال اور ایک دوسرا رشتہ دار بھی شامل ہے۔
یہ دونوں افغان شہری پشاور میں افغانستان کے قونصل خانے کے ملازم تھے، لیکن اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائی گئی ہیں۔
زخمی ہونے والے 60 سے زائد افراد میں سے کم از کم تین پولیس اہلکار ہیں۔
پولیس اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے فوری طور پر جائے وقوع کو گھیرے میں لے کر زخمی افراد کو اسپتالوں میں منتقل کیا۔
پشاور کی جس شاہراہ پر دھماکا ہوا اُسے کچھ دیر کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
اتوار کو بھی صوبہ خیبر پختونخواہ کے دو مختلف علاقوں میں انتخابات میں حصہ لینے والے ایک اُمیدوار اور ایک سیاسی جماعت کے دفتر کے قریب بم دھماکوں میں کم از کم 11 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
11 مئی کے عام انتخابات سے قبل دہشت گردوں کے حملوں میں تیزی آئی ہے اور بعض سیاسی جماعتوں نے سلامتی کے خدشات کے باعث اپنی انتخابی مہم کو بھی محدود کر رکھا ہے۔