عوامی نیشنل پارٹی ضلع پشاور کے صدر سرتاج خان کو ہفتے کی سہ پہر نامعلوم افراد نے گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
پولیس حکام نے بتایا کہ سرتاج خان اپنی کار میں گلبہار کے علاقے کی ایک مصروف سڑک سے گزر رہے تھے کہ نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے انہیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔
سرتاج خان کو فوری طور پر پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کر دیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے انھیں مردہ قرار دیا۔ ابھی تک کسی فرد یا گروہ نے سرتاج خان کے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری اور پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے ایک بیان میں سرتاج خان کے قتل کو ’’گھات لگا کر قتل کا واقعہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، جبکہ جہادیوں کے روپ میں طالبان گھوم رہے ہیں‘‘۔
اُنہوں نے کہا کہ ’’حکومت عوام اور اے این پی کے رہنماؤں کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے‘‘۔
اس واقعے کے فورا" بعد اے این پی کے کارکنوں نے ضلعی دفتر کے سامنے قلعہ بالا حصار کے قریب مظاہرہ کیا اور حکومت کے خلاف نعرے لگائے۔ مظاہرین نے ٹائر جلا کر سڑک کو ہر قسم کی آمد و رفت کیلئے بند کر دیا۔
مظاہرے میں شامل پارٹی کے رہنما ملک فرہاد نے اس واقع پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ پشاور کے ناظم اور پارٹی رہنما کفایت اورکزئی نے کہا ہے کہ’’ پچھلے چند برسوں کے دوران اے این پی کو ملک میں قیام امن، جمہوریت کی بقا، آئین کی بالادستی اور عدلیہ کی حقیقی معنوں میں بحالی کی سزا دی جا رہی ہے‘‘۔
سرکاری بیان کے مطابق، وزیر اعلیٰ محمود خان نے بھی اس واقع کا نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو ملزمان کے خلاف فوری کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ پشاور پولیس نے نامعلوم ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے۔
سرتاج خان کا تعلق پشاور کے ایک متوسط گھرانے سے تھا جو عرصہ دراز سے قوم پرست سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی سے منسلک ہیں۔ چند مہینے قبل سرتاج خان عوامی نیشنل پارٹی پشاور شہر کے صدر منتخب ہوئے تھے جبکہ 2014 سے 2018 کے اواخر تک وہ پشاور شہر کی تنظیم کے جنرل سیکرٹری بھی رہے تھے۔ وہ عوامی نیشنل پارٹی کے اہم اداروں، تھنک ٹینک اور مرکزی کمیٹی کے بھی ممبر تھے۔
سرتاج کا شمار عوامی نیشنل پارٹی کے اہم متحرک نوجوانوں میں ہوتا ہے۔
پچھلے چند برسوں سے اہم رہنماؤں سمیت عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں کارکن دہشت گردی کے واقعات میں ہلاک ہوئے ہیں۔ پچھلے سال 2015 جولائی کو بیرسٹر ہارون بلور خودکش دھماکے میں ساتھیوں سمیت ہلاک ہوئے تھے۔