رسائی کے لنکس

پشاور دہشت گرد حملہ، سکیورٹی پر حزب مخالف کے تحفظات


صوبائی دارالحکومت میں ہونے والے تازہ دہشت گرد حملے کی تحقیقات جاری ہیں جب کہ اس میں ہلاک ہونے والے افراد کی تجہیز و تکفین کا عمل ہفتہ کو مکمل کر لیا گیا۔

جمعہ کو پشاور کے زرعی تربیتی مرکز پر دہشت گرد حملے میں 12 افراد مارے گئے تھے اور سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے تینوں حملہ آوروں کو بھی ہلاک کر دیا تھا۔

اس واقعے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔

صوبے میں حزب مخالف کی جماعتیں اس واقعے کی مذمت کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں کیے جانے والے حکومتی دعوؤں پر سوال بھی اٹھا رہی ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کے ایک سینیئر راہنما میاں افتخار حسین نے ایک بیان میں کہا کہ اس واقعے کو رونما ہونے سے روکنے میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سکیورٹی ایجنسیز کی ناکامی ظاہر ہوتی ہے۔

ان کے بقول دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متفتہ طور پر ترتیب دیے گئے قومی لائحہ عمل پر سنجیدگی سے عملدرآمد نہ ہونے کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔

پاکستان پیپلزپارٹی کے صوبائی صدر انجینیئر ہمایوں خان نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔

ہفتہ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "ہمارا ہمیشہ سے مطالبہ رہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر پوری طرح عمل کیا جائے تو ہی یہ واقعات روکے جا سکتے ہیں۔"

دسمبر 2014ء میں پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر ہونے والے بدترین دہشت گرد حملے کے بعد قومی لائحہ عمل ترتیب دیا تھا جس میں دہشت گردوں اور ان کے معاونین کے خلاف کارروائی کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا۔

لیکن مختلف حلقوں کی طرف سے ایسے تحفظات سامنے آتے رہتے ہیں کہ اس پر پوری طرح عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔

پشاور پولیس کے سینیئر سپریٹنڈنٹ سجاد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ سیکورٹی فورسز کی کارروائیوں کی وجہ سے ماضی کی نسبت دہشت گرد واقعات میں قابل ذکر کمی آئی ہے لیکن ایسے واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔

"ہماری فورس کی تیاری اور سکیورٹی فورسز کے ساتھ رابطوں کے باعث دہشت گرد واقعات میں کمی آئی ہے پچھلے سالوں کی نسبت۔ ایک آدھ واقعہ ہو جاتا کیونکہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔"

حکومت اور سکیورٹی عہدیداروں کا موقف رہا ہے کہ ایسے واقعات دہشت گردوں کے خلاف جاری کارروائیوں کا ردعمل ہیں لیکن دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں جاری رہیں گی۔

XS
SM
MD
LG