رسائی کے لنکس

معذور افراد کی پارلیمان میں نمائندگی کا مطالبہ


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سماجی کارکنوں کے بقول جب صحیح تعداد معلوم نہیں ہو گی تو ایسے افراد کے لیے پالیسی سازی کا عمل بھی لا محالہ متاثر ہوگا۔

پاکستان میں معذور افراد کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنان کا کہنا ہے کہ امتیازی سلوک اور دیگر معاشی و معاشرتی مسائل سے دوچار آبادی کے اس حصے کو بھی قانون سازی کے عمل میں شامل کیا جانا ضروری ہے۔

گزشتہ سال ہونے والی مردم شماری کے عبوری نتائج کے مطابق ملک میں 32 لاکھ 86 ہزار 630 افراد کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں جب کہ عالمی ادارۂ صحت کے اعداد و شمار میں یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی گئی ہے۔

سرگرم کارکنان تعداد میں اس فرق کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں معذور افراد کل آبادی کا 10 فیصد سے بھی زیادہ ہیں اور اعداد و شمار میں یہ تفاوت ایک بڑا مسئلہ ہے۔

سماجی کارکنوں کے بقول جب صحیح تعداد معلوم نہیں ہو گی تو ایسے افراد کے لیے پالیسی سازی کا عمل بھی لا محالہ متاثر ہوگا اور ایسے میں پارلیمان میں ان کی نمائندگی نہ ہونے سے صورتِ حال کسی طور بھی بہتر رخ اختیار نہیں کر سکتی۔

'اسپیشل ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام' نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے روحِ رواں عاطف شیخ کہتے ہیں کہ ملک میں معذور افراد کے لیے کوئی باقاعدہ وزارت یا ادارہ موجود نہیں جہاں یہ لوگ اپنے مسائل کے حل اور شکایات کے لیے رجوع کر سکیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ خصوصی تعلیم کے نام سے وزارت اور محکمے قائم ہیں لیکن معذور افراد کے مسائل اس سے سوا ہیں۔

"ڈس ایبیلیٹی افیئر یعنی معذور افراد کے معاملات، کہ اگر کسی عمارت میں ان کی رسائی نہیں ہے، کہیں ان کو اشاروں یعنی سائن لینگویج کی سہولت نہیں دی جا رہی، کچہری، عدالت، اسپتالوں میں، پولیس اسٹیشنوں میں، تو وہ کہیں نہیں جا سکتے شکایت کرنے۔"

عاطف شیخ کے بقول اس تناظر میں وہ سمجھتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں معذور افراد کی نمائندگی انتہائی ضروری ہے۔

"جب پارلیمنٹ میں معذور لوگ موجود ہوں گے تو ہمارے لیے قانون سازی اور پالیسی میں انھیں شامل کیا جائے گا تو اس سے (معذور افراد کے ساتھ روا رکھے جانے والے) امتیاز میں بھی کمی آئے گی۔"

'سایہ ایسوسی ایشن' بھی ایک عرصے سے معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے سرگرم ہے۔ اس کے صدر عاصم ظفر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں معذور افراد کو صرف طبی نقطہ نظر سے ہی دیکھا جاتا ہے کہ ان میں جسمانی طور پر خامیاں ہیں اور ان لوگوں کو حتیٰ کہ اپنے خاندان والوں کی طرف سے بھی امتیازی سلوک کا سامنا رہتا ہے۔

"اسی فی صد معذور لوگ غریب علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے پاس وسائل نہیں۔ انھیں بنیادی ضروریاتِ زندگی میسر نہیں۔ خاندان کے اندر بھی امتیاز ہے۔ تو ان چیزوں کو اجاگر کرنے اور ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ انھیں بااختیار بنانے کی ضرورت ہے۔"

عاصم ظفر کہتے ہیں کہ پارلیمان میں اقلیتوں اور خواتین کی نمائندگی ہے لیکن معذور افراد کی نمائندگی نہیں جس کی وجہ سے انھیں اپنے مسائل کے حل کے لیے دو ہی راستے نظر آتے ہیں: یا تو عدلیہ یا پھر سڑکوں پر احتجاج۔

آئندہ عام انتخابات 25 جولائی کو ہونے جا رہے ہیں اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اس عزم کا اظہار کر چکا ہے کہ انتخابات میں پولنگ اسٹیشنز میں معذور افراد کو رسائی میں سہولت فراہم کی جائے گی۔

عاصم ظفر کے بقول وہ نئی بننے والی حکومت کے سامنے بھی اس معاملے کو اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG