نائب صدر مائیک پینس نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے ایک وفاقی جج پر کی جانے والی نکتہ چینی کا دفاع کیا ہے۔ جج نے سات مسلمان اکثریتی ملکوں سے امریکہ میں داخلے پر عارضی پابندی کے حکم نامے کی بحالی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
اتوار کے روز 'این بی سی' کے 'میٹ دِی پریس' پروگرام میں بات کرتے ہوئے، پینس نے کہا کہ ''ٹرمپ نے اپنا اظہارِ خیال برستہ طور پر کیا ہے، جسے امریکی عوام ہوا کا تازہ جھونکا خیال کرتے ہیں اور صدر کی سوچ سے متفق ہیں''۔
بقول پینس ''امریکی خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کے معاملے پر جج کی جانب سے دیا جانے والا فیصلہ، صدر کی نگاہ میں انتہائی مایوس کُن ہے''۔
جج کی جانب سے ٹرمپ کے انتظامی حکم نامے پر عارضی امتناع کے احکامات خارج کرنے سے انکار کے بعد، صدر نے متنبہ کیا کہ اس فیصلے کی بنیاد پر ''متعدد انتہائی خراب اور خطرناک افراد ہمارے ملک میں داخل ہو جائیں گے''۔
ٹرمپ نے ٹوئیٹ کیا کہ ''ہمارا ملک کہاں پہنچے گا جب ایک جج ہوم لینڈ سکیورٹی کسی شخص پر سفری پابندی عائد کرتا ہے، ایسے میں، وہ افراد بھی جن کے برے عزائم ہوں گے، وہ بھی امریکہ آسکتے ہیں''۔
ٹرمپ نے جج، جیمز روبرٹ کے جمعے کے روز کے فیصلے کو ''غیر ہوش مندانہ'' قرار دیا اور عہد کیا کہ اِسےخارج کرایا جائے گا۔
اس سے قبل، امریکہ کی ایک وفاقی اپیلز کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے بعض ممالک کے شہریوں اور تمام پناہ گزینوں کے امریکہ میں داخلے پر عارضی پابندی کے حکم نامے کی بحالی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
ایک وفاقی جج کی طرف سے حکم نامے پر عملدرآمد روکنے کا فیصلہ سنایا تھا جس کے خلاف محکمہ انصاف نے ہفتہ کو یہ درخواست دائر کی تھی۔
سان فرانسسکو میں نائنتھ سرکٹ کورٹ آف اپیلز نے اتوار کو علی الصبح ریاست واشنگٹن اور ٹرمپ انتظامیہ سے کہا کہ وہ اپنے موقف سے متعلق مزید دلائل پیر کی دوپہر تک پیش کریں۔
اعلیٰ عدالت کی طرف سے انتظامی حکم نامے کے خلاف حکم امتناع کو ختم کرنے سے انکار سے اب اس معاملے پر قانونی لڑائی آئندہ ہفتے بھی جاری رہے گی۔
قائم مقام اٹارنی جنرل نے حکومت کی طرف سے جمع کروائے گئے موقف میں زور دیا تھا کہ جب اس معاملے پر فیصلہ کرنا ہو کہ کون امریکہ میں داخل یا رہ سکتا ہے، صدر کے اختیارات کو "عدلیہ کے دائرہ کار سے کہیں زیادہ استثنیٰ حاصل ہے۔"
صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ ایک حکم نامے پر دستخط کیے تھے جس کے تحت سات مسلمان اکثریتی ممالک کے شہریوں پر 90 جب کہ تمام پناہ گزینوں کے لیے 120 دن تک امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
اس کا مقصد ٹرمپ انتظامیہ کے بقول ملکی سلامتی کے پیش نظر لوگوں کے امریکہ میں داخلے کی جانچ پڑتال کے نظام کو موثر بنانا ہے۔
تاہم اس حکم نامے پر نہ صرف امریکہ بلکہ دنیا کے مختلف ممالک میں لوگوں کی طرف سے سخت ردعمل دیکھنے میں آیا۔
پابندی کے شکار ہونے والے ملکوں میں ایران، عراق، لیبیا، شام، جنوبی سوڈان، صومالیہ اور یمن شامل ہیں۔
جمعہ کو ریاست واشنگٹن کے ایک جج نے صدارتی حکم نامے پر عملدرآمد معطل کر دیا تھا جس کے بعد پابندی کے شکار ممالک کے ایسے متعدد شہریوں کو جن کے پاس امریکہ کا ویزہ تھا، امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت مل گئی۔
صدر ٹرمپ نے جج کے فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے اسے "نامناسب" قرار دیا تھا۔