پاکستان میں ’الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے ایک نجی ٹیلی ویژن چینل ’بول‘ پر نشر ہونے والے ایک پروگرام کے میزبان عامر لیاقت پر پابندی عائد کر دی ہے۔
عامر لیاقت ’بول‘ ٹی وی پر ایک پروگرام ’’ایسے نہیں چلے گا‘‘ کے میزبان ہیں اور اُنھوں نے رواں ماہ لاپتا ہونے والے پانچ بلاگرز کے بارے میں مبینہ طور منافرت پر مبنی الفاظ استعمال کیے تھے۔
جمعرات کو پیمرا سے جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ ’’عامر لیاقت کو کسی بھی دوسرے ٹی وی چینل پر نفرت انگیز مواد کا پرچار کرنے یا کسی شخص کو ’کافر‘،’غدار‘، ’توہین رسالت‘ یا ’توہین مذہب‘ کا مرتکب قرار دینے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ پاکستانی قانون اور آئین کے مطابق اس طرح کے حساس معاملات پر فیصلے کا اختیار صرف پارلیمان یا اعلیٰ عدلیہ کے پاس ہے۔‘‘
پیمرا کی طرف سے کہا گیا کہ عامر لیاقت کے پروگرام کے خلاف سینکڑوں شکایات موصول ہوئیں اور کئی ہفتوں تک پروگراموں کی مسلسل نگرانی کے بعد ہی اس پابندی کا فیصلہ کیا۔
الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کے مطابق عامر لیاقت اس پابندی کے بعد نا صرف ’بول‘ ٹی وی بلکہ دیگر ٹیلی ویژن چینلز کی نشریات میں بھی شرکت نہیں کر سکیں گے۔
پیمرا کے اعلامیے میں کہا گیا کہ عامر لیاقت اور اُن کے پروگرام پر پابندی اُس وقت تک موثر رہے گی جب تک پیمرا اتھارٹی اُن کے خلاف شکایات پر متعلقہ کونسلز کی سفارشات کی روشنی میں کسی حتمی فیصلے پر نہیں پہنچ جاتی۔
واضح رہے کہ لاپتا بلاگرز کی بازیابی کے لیے مظاہروں میں شامل انسانی حقوق کے کارکن جبران ناصر بھی اُن افراد میں شامل ہیں جنہوں نے عامر لیاقت کے پروگرام کے خلاف شکایت درج کروائی تھی۔
جبران ناصر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اُنھوں نے ایک شہری کے طور پر اپنی شکایت پیمرا کو بھیجی اور ’’انھیں خوشی ہے کہ پیمرا نے یہ اقدام اٹھایا۔‘‘
جبران ناصر نے کہا کہ ’’اگر آپ پیمرا نوٹس پڑھیں تو اس میں لکھا ہوا ہے کہ ہمیں سینکڑوں شکایات آئی ہیں اور آپ کو پتہ ہے کہ آن لائن بھی بہت سارے لوگ اس کا ذکر کر رہے تھے اور مجھے خوشی ہے اس بات کی میرے معاشرے کے اندر میرے لوگوں کو اس بات کا احساس ہے کہ کسی انسان کو مذہب کی بنیاد پر نفرت یا تعصب پھیلانے کی اجازت نہیں دینی چاہیئے۔‘‘
انسانی حقوق کے ایک معروف کارکن اور ماہر تعلیم ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ پاکستان میں نشریاتی اداروں کو بھی احتیاط برتنی چاہیئے۔
’’کیٹ کیپنگ، یعنی نگرانی کی ضرورت ہے۔۔۔ ہمارے پرائیوٹ چینلز میں خاص طور پر کوئی سینیئر آدمی ایسا ہونا چاہیئے، ہر چینل پر یہ فیصلہ کرے کونسی خبر یا مواد جانا چاہیئے۔۔۔ جب ایڈیٹوریل نگرانی نہیں ہو گی اس وقت تک یہ معاملہ ٹھیک نہیں ہو سکتے۔‘‘
انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے حق میں آواز بلند کرنے والے پانچ لاپتا کارکنوں میں سلمان حیدر، وقاص گورایہ، عاصم سعید، احمد رضا نصیر اور ثمر عباس شامل ہیں۔
پاکستان کے دو مختلف شہروں اسلام آباد اور لاہور سے رواں ماہ لاپتا ہونے والے سرگرم کارکنوں کے اہل خانہ نے بھی گزشتہ ہفتے ایک نیوز کانفرنس میں کہا تھا کہ اُن کے گمشدہ عزیزوں کے بارے میں توہین مذہب کے جو الزامات لگائے جا رہے ہیں درست نہیں ہیں۔
جس کے بعد پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے لاپتا ہونے والے سماجی کارکنوں پر مقدمات قائم کرنے سے متعلق میڈیا رپورٹس خصوصاً سوشل میڈیا پر جاری ’’پراپیگنڈے‘‘ کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ایسی خبروں میں ’’قطعاً کوئی صداقت نہیں‘‘۔
وزیر داخلہ نے ایک بیان میں کہا تھا ’’ایسی خبریں مضحکہ خیز اور غیر سنجیدہ ہیں اور بعض عناصر کی جانب سے اس معاملے میں غلط معلومات کی تشہیر کا مقصد معاملے کو مزید الجھانا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ لاپتا افراد کے خلاف سوشل میڈیا پر حالیہ دنوں میں ایسی خبریں سامنے آئی ہیں جن میں یہ الزام عائد کیا جاتا کہ لاپتا ہونے والے افراد ’’توہین مذہب‘‘ کے مرتکب ہوئے۔
جس کے بعد انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا تھا کہ اس طرح کے الزامات سے نا صرف لاپتا افراد بلکہ اُن کے اہل خانہ کے لیے بھی خطرات مزید بڑھ گئے ہیں۔
انسانی حقوق کی مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کے علاوہ قانون سازوں کی طرف سے بھی حکومت سے یہ مطالبات کیے جاتے رہے ہیں کہ گمشدہ کارکنوں کی جلد اور باحفاظت بازیابی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔
وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ ان افراد کی بازیابی کے لیے کوششیں جاری ہیں لیکن تاحال اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔