افغانستان کے جنوبی صوبے ہلمند میں مقامی سطح پر امن کے لیے احتجاجی دھرنے سے شروع ہونے والی تحریک میں اب تیزی آرہی ہے اور یہ ملک کے باقی صوبوں میں بھی پھیل رہی ہے۔
ملک کے اس جنوبی علاقے میں تماشائیوں سے بھرے ہوئے اسٹیڈیم کے باہر 23 مارچ کو ایک کار بم دھماکے میں کم ازکم 14 افراد ہلاک اور درجنوں دیگر زخمی ہوئے۔
یہ حملہ اس وقت ہوا جب وہاں کشتی کے مقابلے جاری تھے۔ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی تاہم افغان عہدیداروں نے اس حملے کا الزام باغی گروپ پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے جن میں خاص طور پر بڑی تعداد میں عام شہری ہلاک ہوتے ہیں۔
ابتدائی طور پراس واقعے کو ایک معمول کے دہشت گرد حملے کے طور پر لیا گیا جس میں عام شہری ہلاک ہوئے اور اسے اسی طرح ہی دیکھا جاسکتا تھا اگر ہلمند کے مکین اس واقعہ کے بعد اس بات کا فیصلہ نا کرتے کہ اب کچھ کرنے کا وقت آگیا ہے۔
مقامی نوجوانوں کے ایک گروپ نے صوبائی دارالحکومت میں احتجاجی دھرنا دیتے ہوئے تشدد کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ بعد ازاں اس دھرنے میں خواتین بھی شامل ہو گئیں اور انہوں نے متحارب فریقین سے خونریز تشدد کے سلسلے کو بند کرنے کا مطالبہ کیا جو ملک میں تفریق کا سبب بن رہا ہے۔
دھرنے میں شریک ایک خاتون نے کہا کہ "ہمیں بیوائیں بنانا بند کر دیں اور ہمارے بچوں کی اموات کو روکیں۔"
ابتدا میں شروع ہونے والا احتجاجی دھرنا بعد ازاں اس وقت ایک بھوک ہڑتالی کیمپ میں تبدیل ہوگیا جب طالبان نے مظاہرین کی امن کی اپیل کو مسترد کر دیا۔ اس کی بجائے انہوں نے مظاہرین کو تنبیہ کی کہ وہ طالبان کے علاقے کے قریب نا آئیں۔ اس کی بجائے باغیوں نے انہیں افغان اور نیٹو فورسز کے اڈوں کے قریب احتجاج کرنے کا کہا۔
بھوک ہڑتال تین روز تک جاری رہنے کے بعد اس وقت ختم کر دی گئی جب مذہبی علما نے مظاہرین کے کھانے پینے کی حوصلہ افزائی کی۔
ہلمند کے احتجاجی مظاہرے میں شریک باچا خان نے وی او اے کو بتایا کہ "مذہبی علماء بھوک ہڑتا ل کے اقدام کو اسلامی کے منافی سمجھتے ہیں اور انہوں نے ہمیں اسے (بھوک ہڑتال کو) ختم کرنے کا کہتے ہوئے کہا کہ وہ طالبان کے پاس جا کر ہمارے مطالبات کے بارے میں ان سے بات کریں گے۔"
اگرچہ یہ بھوک ہڑتال ختم کر دی گئی تاہم احتجاجی دھرنے میں تیزی آرہی ہے اور یہ دیگر صوبوں میں پھیل رہے ہیں۔
ہلمند سے تعلق رکھنے والے امن کے لیے سرگرم کارکن اقبال خیبر نے وی او اے کو بتایا کہ امن کے مطالبات ختم نہیں ہوں گے۔
" ہمارے دھرنے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک متحارب فریق عارضی جنگ بندی کا اعلان نہیں کرتے ہیں۔ ہمارا لانگ مارچ 5 اپریل کو قندہار سے شرو ع ہوا اور ہم ملک کے ہر کونے میں ٹینٹ لگا کر احتجاجی دھرنے دیں گے۔ "
واضح رہے کہ رواں سال فروری میں کابل میں ہونے والے ایک بین الاقوامی کانفرنس کے موقع پر صدر اشرف غنی نے افغان طالبان کو امن مذاکرات کی غیر مشروط پیشکش کی تھی اور انہوں نے پورے ملک میں امن تحریک شروع کرنے کی حمایت کی۔
صدر غنی نے دری زبان میں اپنی ٹویٹ میں کہا کہ "میں ہلمند اور دیگر صوبوں میں شروع ہونے والی اس مہم کو خوش آمدید کہتا ہوں جہاں عورتیں، بزرگ اور نوجوان امن کی تلاش میں اور جنگ اور تشدد کے خلاف اپنی آواز بلند کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ میں یہ امید کرتا ہوں کہ یہ پرامن قومی تحریک مضبوط ہو گی بڑی تعداد میں لوگ اس کی حمایت کریں گے۔"
دوسری طرف افغانستان کی اعلیٰ امن کونسل نے بھی ہلمند کے مکینوں کے اس اقدام کو سراہا ہے۔
افغان اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ کریم خلیلی نے بدھ کو قندہار میں لوگوں کے ایک اجتماع کو بتایا کہ "میں تحریک طالبان (افٖغانستان)، طالبان کمانڈروں اور وہ لوگ جو طالبان کے زیر کنٹرول علاقوں میں مقیم ہیں کہوں گا کہ آئیں جنگ کو ختم کر کے امن کے راہ اپنائیں۔"
اگرچہ طالبان نے ابتدائی طور پر مقامی افراد کے امن کی اپیل کو مسترد کر دیا تاہم اس کے بعد سے باغی گروپ نے اپنے موقف میں نرمی کی ہے۔ ایک طالبان عہدیدار نے نام ظاہر نا کرنے کی شرط پر بتایا کہ ان کا گروپ احتجاجی مظاہرین سے ملنے اور ان سے گفتگو کر نے کا منتظر ہے۔
بظاہر یہ ملاقات ہو چکی ہے۔ دھرنے کے منتظمین کے مطابق ہلمند میں طالبان گروپوں نے ان کے امن کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔