رسائی کے لنکس

پی ڈی ایم کا گوجرانوالہ میں پہلا 'پاور شو'، سیاسی ماحول گرم


گوجرانوالہ کے جناح اسٹیڈیم میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کی بڑی تعداد موجود ہے۔
گوجرانوالہ کے جناح اسٹیڈیم میں مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کی بڑی تعداد موجود ہے۔

پاکستان میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے پلیٹ فارم سے پنجاب کے شہر گوجرانوالہ میں پہلا حکومت مخالف جلسہ کر رہی ہیں جس میں شرکت کے لیے مختلف شہروں سے قافلوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

گوجرانوالہ کے جناح اسٹیڈیم میں مسلم لیگ (ن) سمیت دیگر جماعتوں کے کارکن موجود ہیں جب کہ پارٹی رہنما جلسے میں شرکت کے لیے اپنے اپنے مقامات سے روانہ ہو گئے ہیں۔

جلسے کے منتظمین نے جلسے کی کارروائی کے باقاعدہ آغاز کے لیے شام 6 بجے کا وقت دیا ہے جو رات گیارہ بجے تک جاری رہے گا۔

جلسے سے قبل حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کے ایک دوسرے پر الزامات نے سیاسی ماحول کو مزید گرم کر دیا ہے۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے رہنما الزام عائد کر رہے ہیں کہ اُن کے کارکنوں کو روکا جا رہا ہے اور جلسہ گاہ جانے والی اہم شاہراہوں کو مختلف مقامات پر کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔

تاہم صوبائی حکومت کے ترجمان فیاض الحسن چوہان نے اپوزیشن کے ان الزامات کی تردید کی ہے۔

یاد رہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے 20 ستمبر کو ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں حکومت مخالف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا تھا۔

اپوزیشن نے حکومت مخالف تحریک کے پہلے مرحلے میں ملک کے مختلف شہروں میں جلسوں کا اعلان کیا تھا جب کہ آئندہ سال اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کی کال بھی دی ہے۔

پی ڈی ایم گوجرانوالہ کے جلسے کو حکومت کے خاتمے کی تحریک کا پہلا قدم قرار دے رہی ہے۔ تاہم حکومت کا مؤقف ہے کہ اپوزیشن جماعتیں عوام کو متحرک کرنے میں ناکام ہو گئی ہیں۔

وفاقی وزیرِ برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اپوزیشن کو گوجرانوالہ اسٹیڈیم بھرنا تھا لیکن آدھا اسٹیڈیم چھوڑ کر اسٹیج لگایا گیا ہے۔ اُن کے بقول اتنی جماعتیں مل کر بھی ناکامی کے خوف کا شکار ہیں۔

اس سے قبل وزیرِ اطلاعات شبلی فراز نے حزبِ اختلاف کو جلسہ گاہ بھرنے کا چیلنج دیا تھا جسے مسلم لیگ (ن) کے صوبائی صدر رانا ثنااللہ نے قبول کر لیا تھا۔

لیگی کارکنان کی درخواستوں پر ہائی کورٹ میں سماعت

مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نے جلسے میں شرکت کے لیے جانے والے کارکنان کو مبینہ طور پر روکنے اور سڑکوں کو بند کرنے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔

جمعے کو جسٹس مسعود عابد نقوی نے لیگی رہنماؤں کی متفرق درخواستوں پر سماعت کی تو عدالتی حکم پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس عدالت میں پیش ہوئے۔

ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت نے پرامن جلسے کی اجازت دی ہے اور کسی کارکن کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ انہوں نے عدالت کو یقین دلایا کہ کوئی غیر قانونی کام نہیں ہو گا۔ جس کے بعد عدالت نے تینوں درخواستیں نمٹا دیں۔

'معاہدے پر عمل نہ ہوا تو کارروائی ہو گی'

وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ڈی ایم کو خواہش پر جلسے کی اجازت دی گئی ہے۔ اگر جلسے پر معاہدے کے مطابق عمل نہ ہوا تو حکومت قانون کے مطابق کارروائی کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کرونا ایکٹ کے تحت پی ڈی ایم کے جلسے پر پابندی لگا سکتی تھی لیکن اُنہوں نے ایسا نہیں کیا۔ ان کے بقول حکومت جلسہ انتظامیہ اور شرکا کو ماسک و سینیٹائزر فراہم کر رہی ہے۔

گوجرانوالہ کی ضلعی انتظامیہ اور پی ڈی ایم کے درمیان جلسے کی اجازت کے لیے 28 نکاتی معاہدہ طے پایا ہے جس کے تحت کارکنوں کے درمیان تین سے چھ فٹ فاصلہ رکھنے کے علاوہ اسٹیڈیم کے علاوہ کسی دوسرے مقام سے تقریر کی اجازت نہیں ہو گی۔

جلسے کے لیے گوجرانوالہ کا ہی انتخاب کیوں؟

گوجرانوالہ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 79 سے شروع ہو کر این اے 84 پر مشتمل ہے جسے پاکستان کا صنعتی شہر بھی کہا جاتا ہے۔

دو ہزار اٹھارہ کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) نے گوجرانوالہ سے قومی اسمبلی کی تمام چھ نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار صابر شاکر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ڈی ایم نے گوجرنوالہ کا انتخاب اس لیے کیا ہے کیوں کہ یہاں مسلم لیگ (ن) کا اچھا خاصا ووٹ بینک ہے اور لوگ باہر بھی نکلتے ہیں۔ ان کے بقول گوجرانوالہ کے قریبی شہروں لاہور، سیالکوٹ، شیخوپورہ اور قصور سے بھی لیگی کارکن با آسانی گوجرانوالہ پہنچ کر جلسے میں شرکت کر سکتے ہیں۔

صابر شاکر کی رائے میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے جلسے اسی وقت سود مند ہو سکتے ہیں جب ساری جماعتیں ایک ہی صفحے پر ہوں۔

قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن کا ہنگامہ

دریں اثنا قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران حزبِ اختلاف کے ارکان نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ اس موقع پر کئی ارکان نے حکومت مخالف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔

وزیرِ اعظم عمران خان بھی ایوان میں موجود تھے جو اپوزیشن کی ہنگامی آرائی اور نعرے بازی کے بعد ایوان سے واپس چلے گئے۔

XS
SM
MD
LG