دنیا بھر کی جامعات اور ریسرچ ادارے ان دنوں انسانیت کو کرونا وائرس کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے ویکسین کی تیاری پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ کرونا وائرس سے نمٹنے کے لیے دوا کی تیاری میں مزید کئی ماہ لگ سکتے ہیں۔
ایسے میں احتیاطی تدابیر کے ساتھ ایسے متبادل طریقۂ علاج پر بھی غور کیا جارہا ہے جس سے اس وبا کے اثرات کم کرنے کے ساتھ مریضوں کی جان بچائی جاسکے۔
اسی سلسلے میں چند روز قبل پاکستان کے شہر کراچی کی ڈاؤ میڈیکل یونیورسٹی کے ماہرین نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ 'پیسو امیونائزیشن' کے طریقے سے اس مرض کا علاج کیا جا سکتا ہے۔
اس طریقے کے تحت وائرس سے متاثر ہو کر صحت یاب ہونے والے مریض کے خون سے کچھ خلیات (اینٹی باڈیز) لے کر متاثرہ مریضوں کو لگائے جاتے ہیں۔ جو وائرس کے متاثرہ مریض کے مدافعتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں۔
ڈاؤ یونیورسٹی کے کالج آف بائیو ٹیکنالوجی کے پرنسپل ڈاکٹر شوکت علی کا کہنا ہے کہ خلیات منتقل کرنے کے لیے 'انٹراوینسلی ایڈمنسٹریبل امینوگلوبلین (آئی وی آئی جی) یا (نسوں کے ذریعے پہنچائی جانے والی اینٹی باڈیز) کا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اس طریقہ علاج میں کوئی بھی شخص اس وبا سے متاثر ہو کر احتیاطی تدابیر یعنی آئسولیشن میں رہنے کے بعد مدافعتی نظام کی بدولت صحت یاب ہو جاتا ہے۔
لہذٰا اس کے جسم میں پیدا ہونے والی 'اینٹی باڈیز' کو دوسرے مریضوں کے لیے بھی قابل استعمال بنایا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر شوکت نے بتایا کہ یہ قدیم طریقہ علاج ہے۔ اور اس سے قبل تشنج، کتے کے کاٹنے، سانپ کے زہر، طاعون کے اثرات کو زائل کرنے سمیت دیگر کئی امراض اور وبائی امراض کو کنٹرول کرنے میں استعمال ہوتا رہا ہے۔
ڈاکٹر شوکت علی کے مطابق یونیورسٹی کی ٹیم ابتدائی طور پر مارچ 2020 میں کرونا سے متاثرہ افراد کے خون کے نمونے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی۔ جس کے بعد صحت یاب مریض کے خون کے پلازما سے اینٹی باڈیز کو کیمیائی طور پر الگ کر کے صاف کیا گیا۔
اس طریقے میں اینٹی باڈیز سے باقی ناپسندیدہ مواد جن میں بعض وائرس اور بیکٹیریا بھی شامل ہیں، انہیں ایک طرف کر کے درکار مواد یعنی 'ہائپر امیونو گلوبیولن' حاصل کیا جاتا ہے۔
کیا یہ کوئی نیا طریقہ علاج ہے؟
ڈاکٹر شوکت علی نے بتایا کہ یہ کوئی نیا طریقہ علاج نہیں بلکہ چین میں بھی کرونا وائرس کی وبا کے دوران اس طریقے پر کامیابی سے عمل کیا جاچکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ عام طور پر (آئی وی آئی جی) کسی بھی صحت مند شخص کے پلازما سے ہی تیار کی جاتی ہے۔
یونیورسٹی کے ماہرین کی ٹیم نے بھی اسی طریقہ علاج کے تحت (آئی وی آئی جی) کرونا وائرس سے متاثر ہو کر صحت مند ہونے والے شخص کے خون کے پلازمہ سے تیار کی ہے۔
ماہرین کو یہ توقعات ہیں کہ صحت مند شخص کے خون کے پلازما میں کرونا وائرس کے خلاف مدافعت بڑھانے والے 'امیونوگلوبلین' پائے جاتے ہیں۔ اور اسی لیے اس کو ڈاکٹر شوکت علی اپنی ٹیم کی کامیابی اور موجودہ بحرانی کیفیت سے نمٹنے میں امید کی کرن قرار دے رہے ہیں۔
اُن کا دعویٰ ہے کہ دنیا میں اب تک کرونا کے مریضوں کے علاج کے لیے مخصوص 'امینوگلوبلین' تیار ہونے کی رپورٹ سامنے نہیں آئی ہے۔
ماہرین کے مطابق یہ طریقہ غیر متحرک مامونیت (پیسو امیونائزیشن) کی ہی ایک قسم ہے مگر اس میں مکمل پلازما استعمال کرنے کے بجائے اسے شفاف کر کے صرف اینٹی باڈیز استعمال کیے جاتے ہیں۔
ماہرین نے کرونا وائرس کے صحت یاب مریضوں کی جانب سے کم مقدار میں عطیہ کیے گئے خون کو شفاف کر کے اینٹی باڈیز علیحدہ کیے جو کرونا کو غیر مؤثر کر چکے تھے۔
ڈاکٹر شوکت کا کہنا تھا کہ چونکہ اس وبا سے بچاؤ یا علاج کے لیے دوا کی تیاری میں ابھی کافی وقت لگے گا تو اس کے لیے یہ متبادل کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
ڈاکٹر شوکت علی کے مطابق کرونا وائرس کے لیے مخصوص اس (آئی وی آئی جی) کا جانوروں میں سیفٹی ٹرائل ہو چکا ہے۔ جس کے حوصلہ افزا نتائج موصول ہونے کے بعد ان کا ادارہ اب ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کو یہ طریقہ علاج تجویز کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
اُن کے بقول قانونی تحفظ ملنے کے بعد اسے انسانوں پر آزمایا جائے گا۔
لیکن ڈاکٹر شوکت نے واضح کیا کہ یہ کوئی ویکسین نہیں ہے۔ بلکہ یہ طریقہ علاج بیماری کے خلاف انسان کی قوت مدافعت کو مضبوط کرنے کی ایک کوشش ہے۔
واضح رہے کہ دنیا کی چھ بڑی دوا ساز کمپنیوں کے کنسورشیم نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے دوا تیار کرنے کے لیے ریسرچ شروع کر رکھی ہے۔
پیسو امیونائزیشن کیا ہے؟
قومی ادارہ برائے امرض خون کے سربراہ ڈاکٹر طاہر شمسی کا کہنا ہے کہ 'پیسو امیونائزیشن' ایک شخص کے مدافعتی نظام کو دوسرے انسان میں منتقل کرنے کا نام ہے۔
اُن کے بقول اگر کسی انسانی جسم نے کسی خاص مرض کے خلاف مدافعت پیدا کرلی ہے تو اس مدافعت کو دوسرے متاثرہ انسان (جس کا مدافعتی نظام اس مخصوص بیماری کے خلاف کمزور ہے) کو منتقل کرنے سے متاثرہ مریض کی قوت مدافعت بڑھ جاتی ہے۔
ان کے مطابق دنیا بھر کی ریگولیٹری اتھارٹیز نے اس وبا کو کنٹرول کرنے کے لیے دوا کی تیاری تک مشروط اجازت کے تحت اس کے کلینیکل ٹرائل کی محدود اجازت دی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ کلینیکل ٹرائل کے لیے مریض کو آگاہ کرنا ضروری ہوتا ہے، اس کی اجازت کے بغیر یہ تجربہ اس پر نہیں کیا جاسکتا۔
اُن کے بقول مریض تجربے کی غیر مشروط اجازت دے گا تبھی یہ طریقہ اپنایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح جس ادارے میں یہ ٹرائل ہو رہا ہے اس طبی ادارے کی ایتھکس کمیٹی، ریگولیٹری باڈیز یعنی ڈرگ سیفٹی مانیٹرنگ بورڈ اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو مریض پر ہونے والے ہر قسم کے 'سائیڈ ایفیکسٹس' سے مطلع کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ڈاکٹر طاہر شمسی کہتے ہیں کہ ساتھ میں یہ بھی بتانا ضروری ہوتا ہے کہ اس تجربے کے مقاصد کس حد تک حاصل ہو پارہے ہیں۔ اگر مقاصد زیادہ پورے ہورہے ہوں اور اس کے مضر اثرات اتنے زیادہ نہ ہوں تو اس طریقہ علاج کو منظور کرلیا جاتا ہے۔
کیا آئی وی آئی جی کی تیاری واقعی بڑی کامیابی ہے؟
ڈاکٹر طاہر شمسی کے مطابق ہم نے کوئی نیا کام نہیں کیا بلکہ 'پیسو امیونائزیشن' پر انسان صدیوں سے کام کرتا چلا آرہا ہے۔
لیکن ڈاؤ یونیورسٹی کی جانب سے 'امیونو گلوبلین' کی تیاری سے پاکستان کی جانب سے دنیا کو ایک پیغام ضرور گیا ہے کہ 'یسو ایمیونائزیشن' ایک موثر طریقہ علاج ثابت ہوسکتا ہے۔
ڈاکٹر شمسی کے بقول ماضی میں آںے والی بہت سی وباؤں میں یہ طریقہ علاج کافی مؤثر رہا ہے۔ البتہ ہماری تحقیق یہ ہے کہ کرونا وائرس کے علاج میں یہ کتنا مؤثر ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی جانب سے اجازت ملنے پر حکومت سندھ کی جانب سے قائم کردہ کمیٹی نے بھی کام شروع کردیا ہے۔ آٹھ رکنی کمیٹی 'پیسو امیونائزیشن' سے علاج سے متعلق روڈ میپ اور تجاویز تیار کر کے سفارشات پیش کرے گی۔
کمیٹی کے رکن ڈاکٹر طاہر شمسی نے بتایا ہے کہ اس مقصد کے لیے ڈیٹا اور صحت یاب ہونے والے مریضوں کے خون کا پلازما اکھٹا کرنے کا کام شروع کیا جاچکا ہے۔