رسائی کے لنکس

فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ مزید چار شدت پسندوں کو پھانسی


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان میں قائم خصوصی فوجی عدالتوں سے سزائے موت پانے والے چار مزید شدت پسندوں کو پھانسی دے دی گئی ہے۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ سے جاری بیان میں کہا گیا کہ ان افراد کو صوبہ خیبر پختونخواہ کی ایک جیل میں بدھ کی صبح کو پھانسی دی گئی۔

آئی ایس پی آر کے بیان کے مطابق یہ ’’دہشت گرد ‘‘معصوم افراد کے قتل، تعلیمی اداروں کو تباہ کرنے کے واقعات کے علاوہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور مسلح افواج پر حملوں میں ملوث تھے۔

جن ’’دہشت گردوں‘‘ کی سزائے موت پر عمل درآمد کیا گیا اُن کے نام احمد علی، اصغر خان، گل رحمن اور ہارون الرشید بتائے گئے ہیں۔

'آئی ایس پی آر'کے بیان کے مطابق ان چاروں شدت پسندوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم 'جسٹس پروجیکٹ پاکستان' کے مطابق پشاور میں دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد ملک میں سزائے موت پانے والے 441 افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے۔

جب کہ ملک میں قائم فوجی عدالتوں کی طرف سے اب تک 160 سے زائد افراد کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔

اگرچہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کی طرف سے فوجی عدالتوں سے سنائی جانے والی سزاؤں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ ملک کو درپیش غیر معمولی حالات سے نمٹنے کے لیے یہ خصوصی عدالتیں بنائی گئیں اور دوران سماعت تمام ملزمان کو صفائی کا پورا موقع دیا گیا۔

انسانی حقوق کے موقر غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر مہدی حسن نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کہا کہ اگرچہ اب تک متعددقیدیوں کو پھانسی دے جا چکی ہے لیکن ان کے بقول اس طرح کے اقدام سے دہشت گردی پر پوری طرح قابو نہیں پا جا سکا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انتہا پسند سوچ کو ختم کرنا ضروری ہے۔

پشاور میں دسمبر 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کے مہلک حملے کے بعد ملک میں دو سال کی مدت کے لیے فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے 21 ویں آئینی ترمیم منظور کی گئی تھی۔

لیکن وہ دو سالہ مدت رواں سال سات جنوری کو ختم ہو گئی تھی، جس کے بعد ایک مرتبہ پھر سیاسی جماعتوں نے مشاورت کے بعد مزید دو سال کے لیے فوجی عدالتوں میں توسیع کا فیصلہ کیا تھا۔

XS
SM
MD
LG