لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے تقریباً دو سال اور دو ماہ بعد امید کی جا رہی تھی کہ سری لنکا کی ٹیم پاکستان میں عالمی کرکٹ کا سلسلہ دورہ پاکستان سے جوڑ دے گی تاہم رواں ماہ پے در پے دہشت گردی کے واقعات کے بعد لنکن کرکٹ بورڈ نے بھی معذرت کر لی اورآنے والے وقت کے علاوہ کوئی بھی نہیں بتا سکتا کہ پاکستان میں عالمی کرکٹ کب بحال ہو گی۔
ادھر پی سی بی اسی بات پر خوش نظر آ رہا ہے کہ افغانستان کی اے ٹیم ان دنوں پاکستان کے دورے پر ہے ۔ عجب اتفاق ہے کہ ایک دن چیئرمین پی سی بی اعجاز بٹ اور چیف سلیکٹر محسن حسن کے درمیان اختلافات کی خبریں گردش کرتی ہیں تو دوسرے دن محض ایک ملاقات تمام مسائل کے حل کا باعث بن جاتی ہے ۔ شاہد خان آفریدی اور کوچ وقار یونس کے درمیان اختلافات کی خبریں بھی پچھلے دنوں زیر گردش رہیں جس کا نتیجہ شاہد آفریدی کی کپتانی سے فراغت کی صورت میں نکلا ۔
یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب شاید آفریدی اپنے والدکے علاج کی غرض سے امریکا میں موجود تھے جس کے باعث نہ صرف شاہد آفریدی نے دورہ آئر لینڈ میں کھیلنے سے معذرت کر لی بلکہ شاہد آفریدی کے کیرئرپر سوالیہ نشان بھی لگتا نظر آرہا ہے ۔
کرکٹ کے بعض حلقے اور سابق کرکٹرز بھی اس فیصلے پر کڑی تنقید کرتے نظر آتے ہیں اور اسے بورڈ کی غیر مستقبل مزاجی کا ایک اور واقعہ قرار دیا جا رہا ہے تاہم دوسری جانب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ایک کپتان کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ ٹیم میں موجود کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کا اسے علم ہونا چاہیے تاکہ وہ صحیح وقت پر انہیں استعمال میں لاسکے۔ شاہد آفریدی میں اس کا فقدان نظر آتا ہے جس کی مثال عالمی کپ میں عبدالرزاق کا استعمال ہے ۔ اسی فقدان کے سبب دورہ ویسٹ انڈیز میں نئے بلے باز صلاح الدین اور عماد اعظم کو خاطر خواہ کارکردگی دکھانے کا موقع نہ مل سکا ۔
صلاح الدین کو صرف دو میچوں میں شرکت کا موقع دیا گیا جس میں انہوں نے صرف تیرہ رنز بنائے ۔ آل راؤنڈر عماداعظم جنہیں اس سیریز میں آل راؤنڈر اعبدالرزاق کا متبادل قرار دیا جا رہا تھا انہیں چار مقابلوں میں آزمایا گیا تاہم انہیں صرف دو ہی اننگز میں بلے بازی کا موقع ملا جس میں انہوں نے 37 رنز بنائے۔
بالنگ کے شعبے میں عماد سے صرف آٹھ اوورز کروائے گئے جن میں وہ ایک وکٹ حاصل کر سکے ۔ایک روزہ ٹیم کا حصہ نئے کھلاڑی وکٹ کیپر محمد سلمان اورفاسٹ بالرزجنید خان کو اس سیریز میں بھر پور موقع فراہم کیا گیا ۔اگر چہ وکٹ کیپر محمد سلمان کی وکٹوں کے پیچھے کارکردگی بہتر رہی لیکن بیٹنگ میں وہ خاطر خواہ کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ۔پانچ ایک روزہ میچوں میں صرف 22 رنز جبکہ ٹیسٹ سیریز میں بھی انہوں نے چار اننگز کھیلنے کے باوجود صرف 25 رنز بنائے ۔ فاسٹ بالرز جنید خان نے پانچ میچوں میں 33 اوور کیے مگر صرف تین وکٹیں اپنے نام کر سکے ۔ تنویر احمد بھی ایک ٹیسٹ میں صرف دو ہی وکٹیں حاصل کر سکے ۔
دورہ ویسٹ انڈیز کے دوران ٹیم میں ایک بار پھر اوپنرز کی کارکردگی سوالیہ نشان بنی رہی ۔ اگر چہ توفیق عمر اورمحمد حفیظ کی جوڑی نے پہلے دونوں میچوں میں اچھا آغاز فراہم کیا مگر اس کے بعد آخری تین میچوں میں پاکستان کی ابتدائی شراکت بالترتیب، نو ، پندرہ اور سولہ رنز رہی ۔
ٹیسٹ سیریز کے دوسرے میچ کی آخری اننگز میں محمد حفیظ اور توفیق عمر نے 82 رنز کی شراکت ضرور فراہم کی مگر اس سے مقابلے میں دونوں کی شراکت صرف 17 رنز پر محدود رہی جبکہ پہلے ٹیسٹ کی دونوں اننگز میں بالترتیب پانچ اور دو رنز کے بعد ہی پاکستان کی پہلی وکٹ گر گئی تھی ۔
ماہرین کے مطابق موجودہ صورتحال عالمی کپ کے بعد کسی حد تک مستحکم نظر آنے والی پاکستانی ٹیم ایک مرتبہ پھر بحرانی کیفیت کا شکار ہے اور اگر بروقت صحیح فیصلے نہ کیے گئے تو آنے والے وقت میں اس کے انتہائی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1