پاکستان کا شمار دنیا میں موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے دس ممالک میں ہوتا ہے اور حالیہ سالوں میں اس کے بہت نمایاں اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
یہ بات محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول نے وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں کہی۔
انہوں نے بتایا اس تبدیلی سے متاثر ہونے کی وجہ ہمارا جغرافیائی محل وقوع اور اندرونی حالات ہیں۔ پاکستان میں بڑی تیزی سے جنگلات کی کٹائی ہو رہی ہے جس سے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات اور بھی شدید ہو گئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جو تبدیلیاں حالیہ دس سالوں میں دیکھی گئی ہیں ان میں سیلاب سر فہرست ہے۔ دوسرے نمبر پر خشک سالی ہے۔ صوبہ بلوچستان میں پورا سال خشک سالی رہتی ہے۔ اس کے علاوہ سندھ کے کچھ علاقے، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے خشک سالی سے اکثر دوچار رہتے ہیں۔
"اس کے بعد سمندری طوفانوں کا نمبر آتا ہے۔ پاکستان کے جنوب میں بحیرہ عرب واقع ہے جس میں کبھی کبھار سمندری طوفان پیدا ہوتے ہیں اور پاکستان کے علاقے کو وہ متاثر نہیں کرتے تھے۔ اب سال میں تقریباً دو یا تین سمندری طوفان پاکستان کے ساحلوں کے پاس سے گزرتے ہیں اور تیز ہوائیں دیتے ہیں اور بعض اوقات بہت زیادہ بارش بھی دیتے ہیں۔"
اگرچہ اس خطے میں بہت زیادہ گرمی پڑتی ہے مگر ہیٹ ویوو یعنی گرمی کی لہر بہت زیادہ عام نہیں تھی۔ مگر اب ایسے واقعات بھی عام ہو گئے ہیں۔ بچھلے برس ہی کراچی میں جب گرمی نے شدت اختیار کی تو اس سے ایک سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔
ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا کہ پاکستان کے شمال میں گلیشیئرز یعنی برف کے ذخائر تیزی سے پگھل رہے ہیں۔ گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلاؤ جھیلیں بناتا ہے۔ وہ جھیلیں جب ٹوٹتی ہیں تو نیچے کے علاقوں میں سیلاب کی صورت میں بہت زیادہ نقصان کا باعث بنتی ہیں۔
دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلی پیدا کرنے والی سرگرمیوں میں تخفیف اور اس کے اثرات سے بچاؤ کی تدابیر کی جا رہی ہیں۔
پاکستان نے 2012 میں نیشنل کلائمیٹ چینج پالیسی تشکیل دی تھی جس میں تخفیف اور بچاؤ دونوں قسم کی تدابیر کی نشاندہی کی گئی۔
ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا کہ اس وقت موسمیاتی تبدیلی کی وفاقی وزارت ایک قومی لائحہ عمل پر کام کر رہی ہے جس کے تحت مختلف صوبوں میں جنگلات لگانے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کی تخفیف کی تدابیر سے مراد ہے کہ جو سرگرمیاں کاربن یا گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کا باعث بنتی ہیں ان کو کم کیا جائے۔ یہ گیسیں کرہ ارض کی حدت اور موسمی تغیر کا باعث بن رہی ہیں۔
گرین ہاؤس گیسوں میں میتھین اور نائٹرس آکسائیڈ گیسیں شامل ہیں۔ چاول کی کاشت کے دوران میتھین کا بہت زیادہ اخراج ہوتا ہے۔ زرعی سائنسدان چاول کی کاشت کے ایسے طریقے کے کامیاب تجربات کر رہے ہیں جس سے میتھین کا اخراج کم کیا جا سکے۔ کسانوں کو ایسے طریقے استعمال کرنے پر مائل کرنا اہم ہے۔
میتھین کے اخراج کا دوسرا بڑا ذریعہ جانوروں کا گوبر ہے۔ اگر گوبر سے میتھین گیس حاصل کر کے اسے استعمال کر لیا جائے تو اس سے دہرا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ بڑے شہروں میں میٹرو بسوں سمیت نقل و حمل کے منصوبوں سے ٹریفک سے خارج ہونے والی خطرناک گیسوں میں کمی آئے گی۔
دیگر اقدامات میں شمسی توانائی اور ہوا سے حاصل کی جانے والی توانائی کے فروغ کے اقدامات شامل ہیں۔
ڈاکٹر غلام رسول نے بتایا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو روکا نہیں جا سکتا لہٰذا ان سے بچاؤ کی تدابیر نہایت اہم ہیں۔ ان میں ڈزاسٹر مینیجمنٹ یعنی قدرتی آفات سے بچاؤ کے منصوبے سب سے اہم ہیں۔