پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 72 ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان، افغانستان کی جنگ اپنی سرزمین پر نہیں لڑے گا۔
انھوں نے دعویٰ کیا کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے ہیں جہاں سے وہ پاکستان پر دہشت گرد حملے کرتے ہیں۔
جمعرات کی شب نیویارک میں اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سربراہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے اور افغانستان کا مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے۔
پاکستانی وزیراعظم نے ایک مرتبہ پھر اپنی حکومت کا موقف دہراتے ہوئے کہا کہ پڑوسی ملک میں امن، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مصالحت سے ہی قائم ہو سکتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے 70 ہزار جانیں قربان کیں اور اپنے علاقوں سے دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کا خاتمہ کیا۔
شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ اس جنگ میں پاکستانی معیشت کو 120 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھانا پڑا۔
انھوں نے کہا کہ افغانستان میں امن کی ضرورت سب سے زیادہ پاکستان کو ہے کیونکہ پاکستان کا امن افغانستان کے امن سے جڑا ہے۔
وزیر اعظم عباسی نے ہمسایہ ملک بھارت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کشمیریوں کو طاقت کے زور پر دبا رہا ہے اور کشمیریوں کو اپنے مقدر کا فیصلہ کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ بھارت کشمیر میں جنگی جرائم کا مرتکب ہو رہا ہے اور ان کے بقول اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ وہاں اپنا مشن بھیجے جو جنگی جرائم کا جائزہ لے کر مرتکب افراد کو سزا دے۔
پاکستانی وزیراعظم نے اقوامِ متحدہ سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ کشمیر سے متعلق سلامتی کونسل کی قرار داد پر عمل درآمد کے لیے ایک خصوصی مندوب یا ایلچی بھی مقرر کرے۔
شاہد خاقان عباسی نے عالمی برادری پر بھی زور دیا کہ اُسے بھی کشمیر میں سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورت حال پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے۔
جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ پاکستان بھارت سے مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن اُن کے بقول اس کے لیے بھارت کو "پاکستان میں شدت پسند کارروائیوں کی مدد یا معاونت بند کرنی ہو گی۔"
واضح رہے کہ بھارت پاکستان میں ایسی کارروائیوں میں ملوث ہونے کے الزامات کو مسترد کرتا آیا ہے جب کہ خود نئی دہلی، اسلام آباد پر ایسے ہی الزامات عائد کرتا رہا ہے۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں پاکستان کی جوہری طاقت ہونے کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ پاکستان کو یہ قدم اپنے پڑوسی کی جانب سے اس سمت میں پہل کرنے کی وجہ سے اور اپنے تحفظ کے لیے اٹھانا پڑا۔
وزیر اعظم خاقان عباسی نے فلسطین کے مسئلے کو بھی موضوع بنایا اور اس کے حل پر زور دیا۔
اُنھوں نے دہشت گردی کے عالمی مسئلے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مشرق وسطیٰ کے کئی ملکوں کو داعش ، القاعدہ اور دہشت گرد گروہوں کے خطرے کا سامنا ہے ۔ ان کے بقول دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے اور عالمی برداری کو مل کر اس چیلنج کا جواب دینا چاہیے۔
وزیراعظم نے آب و ہوا کی تبدیلی کے چیلنج کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پیرس معاہدے پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے۔