رسائی کے لنکس

تحریکِ عدم اعتماد اور سیاسی جوڑ توڑ: 'بات اب بہت آگے نکل چکی ہے'


وزیرِ اعظم عمران خان نے حال ہی میں مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے لاہور میں اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے حال ہی میں مسلم لیگ (ق) کی قیادت سے لاہور میں اُن کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آنے کے بعد ملک میں سیاسی درجۂ حرارت بڑھ چکا ہے اور جوڑ توڑ کی سیاست بھی عروج پر ہے۔

مرکز اور پنجاب میں حریف، حلیف بن رہے ہیں تو وہیں ماضی میں ایک دوسرے کا ساتھ نبھانے کا دم بھرنے والے سیاست دان بھی خم ٹھونک کر سامنے آ گئے ہیں۔

وزیرِ اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک سے پیدا ہونے والے سیاسی طوفان میں مبصرین کے مطابق پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کی حکومتی کشتی بھی ہچکولے کھا رہی ہے وہیں پنجاب اسمبلی میں محض 10 نشستیں رکھنے والی مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری پرویز الہٰی یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ اپوزیشن نے اُنہیں وزارتِ اعلیٰ کی پیش کش کی ہے۔

پرویز الہیٰ کے رواں ہفتے سامنے آںے والے متضاد بیانات نے ان افواہوں کو تقویت بخشی ہے کہ وفاقی حکومت کے لیے آئندہ چند روز میں مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں۔ تاہم وزیرِ اعظم عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور قومی اسمبلی میں ان کی نمبر گیم پوری ہے۔

منگل کی شب ایک انٹرویو کے دوران پرویز الہٰی نے کہا تھا کہ حکومتی اتحادیوں کا 100 فی صد جھکاؤ اپوزیشن کی طرف ہے لیکن اگلے ہی روز انہوں نے ایک اور بیان میں کہا کہ وہ حکومت کا حصہ ہیں اور ہر مشکل وقت میں اُنہوں نے حکومت کا ساتھ دیا ہے۔

کیا اب بھی حکومت اور اس کے اتحادیوں کے درمیان معاملات طے ہو سکتے ہیں اور کیا مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) مستقبل میں اکٹھے چل سکتے ہیں؟ آئندہ چند روز میں پنجاب کی سیاست کیا رُخ اختیار کرے گی؟ اس پر وائس آف امریکہ نے پنجاب کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں سے بات کی ہے۔

کیا مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) اکٹھی چل سکیں گی؟

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی کے حالیہ انٹرویو سے ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ مفاہمت ہو چکی ہے اور صورتِ حال یہ ہے کہ (ن) لیگ کے رُکن اسمبلی نے لاہور میں پوسٹر لگائے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی پنجاب کے مسائل حل کر سکتے ہیں۔

اُن کے بقول، "شہباز شریف کے طرزِ حکمرانی کے سب سے بڑے ناقد چوہدری پرویز الہٰی یہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) میں کوئی اختلاف نہیں ہے جس سے دونوں جماعتوں کی قربتیں ظاہر ہوتی ہیں۔"

وائس آف امریکہ کے ساتھ بات کرتے ہوئے ہوئے سلیم بخاری نے کہا کہ چوہدری پرویز الہٰی نے وضاحتی بیان دے کر اپنے منگل کو دیے گئے جارحانہ انٹرویو کا اثر ذائل کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن اب بات بہت آگے نکل چکی ہے اور یہ چوہدری پرویز الہٰی بھی جانتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف 14 برس چوہدری برادران کی رہائش گاہ پر گئے تھے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف 14 برس چوہدری برادران کی رہائش گاہ پر گئے تھے۔

سینئر صحافی خواجہ فرخ سعید کہتے ہیں کہ مسلم لیگ (ق) اور پیپلزپارٹی کے درمیان ایک طرح سے دُشمنی تھی۔ کیوں کہ چوہدری شجاعت حسین اپنے والد کے قتل کا الزام پیپلزپارٹی پر عائد کرتے تھے۔ لیکن پھر ہم نے دیکھا کہ مسلم لیگ (ق) پیپلزپارٹی کے ساتھ اتحادی حکومت میں رہی۔

اُن کے بقول مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) کی قیادت کے درمیان پھر بھی رابطے رہے ہیں اور یہ ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک ہوتے رہے ہیں۔

خواجہ فرخ سعید کہتے ہیں کہ سیاست امکانات کا کھیل ہے اور اس میں کوئی بھی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی اور نہ ہی سیاست کے سینے میں دل ہوتا ہے۔

صحافی سلمان غنی کہتے ہیں کہ اگر عمران خان اور مسلم لیگ (ق) ساتھ چل سکتے ہیں تو پھر مسلم لیگ (ن) اور (ق) بھی مل کر چل سکتے ہیں۔

سلمان غنی نے دعویٰ کیا کہ مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین اور نواز شریف کا آپس میں ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا ہے۔

بدھ کی شب' جیو نیوز' کے پروگرام کیپٹل ٹاک میں میزبان حامد میر سے گفتگو میں قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نے کہا تھا کہ چوہدری برادران کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے تعلقات بتدریج بہتر ہو رہے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کے بقول مسلم لیگ (ق) کا جھکاؤ اب بھی اپوزیشن کی طرف ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کے بقول مسلم لیگ (ق) کا جھکاؤ اب بھی اپوزیشن کی طرف ہے۔

کیا مسلم لیگ (ن) کے اندر پرویز الہٰی کو وزیرِ اعلٰی بنانے پر اتفاق ہے؟

سلمان غنی کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کے بعض حلقے چوہدری پرویز الہٰی کو پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کی مبینہ پیش کش پر تحفظات رکھتے ہیں۔ تاہم اُن کے بقول مسلم لیگ (ن) میں فیصلوں کا اختیار لندن میں موجود پارٹی سربراہ نواز شریف کے پاس ہے۔

اُن کے بقول مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک نواز شریف کی وجہ سے ہے اور پارٹی رہنما دبے الفاظ میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں، لیکن نواز شریف کے فیصلوں کی نفی نہیں کر سکتے۔

خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما شاہد خاقان عباسی نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ محض چند اراکینِ اسمبلی والی جماعت کو پنجاب کی وزارتِ اعلٰی نہیں دی جا سکتی۔

خواجہ فرخ سعید کے مطابق شریف خاندان اور چوہدری برادران کے درمیان تعلقات اس وقت خراب ہوئے تھے جب شریف خاندان نے سن 2000 میں جلاوطنی اختیار کر لی تھی اور پارٹی قیادت چوہدری برادران کے سپرد کرنے کے بجائے جاوید ہاشمی کو قائم مقام صدر بنا دیا گیا تھا۔

اُن کے بقول جب 1997 کے انتخابات کے بعد چوہدری پرویز الہٰی کو وعدے کے باوجود وزیرِ اعلٰی نہیں بنایا گیا تو سن 2000 میں پارٹی قیادت سونپنے کے معاملے پر بھی دونوں سیاسی گھرانے ایک دوسرے سے دُور ہو گئے تھے۔

تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں نیا سیٹ اپ کب تک چلے گا؟

خواجہ فرخ سعید کہتے ہیں کہ اگر تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو نئی حکومت اس اسمبلی کی مدت تک برقرار نہیں رہے گی کیوں کہ پھر آئندہ انتخابات میں لوگ تحریکِ انصاف کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی اور نئی حکومت کی ڈیڑھ سالہ کارکردگی کا موازنہ کریں گے۔

اُن کے بقول نئی حکومت ہو سکتا ہے کہ اس برس کے آخر تک برقرار رہے اور پھر اسمبلیاں توڑ دی جائیں اور نئے انتخابات ہوں گے۔

بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں نئی حکومت شاید اس سال کے آخر تک ہی برقرار رہے جس کے بعد نئے انتخابات ہو سکتے ہیں۔
بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں نئی حکومت شاید اس سال کے آخر تک ہی برقرار رہے جس کے بعد نئے انتخابات ہو سکتے ہیں۔

شہباز شریف نے اپنے انٹرویو میں پاکستان تحریکِ انصاف کے بغیر ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر آئندہ پانچ برس کے لیے قومی حکومت کے قیام کی بھی تجویز دی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ قومی حکومت کی تشکیل اُن کی ذاتی رائے ہے اور تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کی صورت میں ضروری قانون سازی کے بعد عام انتخابات ہونے چاہئیں۔

ترین گروپ کیا چاہتا ہے؟

تجزیہ کار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کی قیادت سے ناراض جہانگیر ترین اور علیم خان گروپ بھی چوہدری برادران سے رابطے میں ہے اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئےہے۔

اُن کے بقول اگر ترین گروپ اپوزیشن جماعتوں کا ساتھ نہ بھی دے تو مسلم لیگ (ق) اور دیگر اتحادیوں کو ساتھ ملا کر نہ صرف مرکز بلکہ پنجاب میں بھی تبدیلی لائئ جا سکتی ہے۔

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین گروپ اور علیم خان کو آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ بھی مل سکتے ہیں۔

عبدالعلیم خان
عبدالعلیم خان

خواجہ فرخ سلیم بخاری سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ترین گروپ کو آئندہ الیکشن میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی ٹکٹیں مل سکتی ہیں اور اُنہیں آئندہ مخلوط حکومت میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

اُن کے بقول ترین گروپ بالخصوص علیم خان عثمان بزدار کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی کے لیے اُن کی خدمات کے پیشِ نظر وزارتِ اعلٰی پر اُن کا حق تھا۔

سیاسی حالات کے پیشِ نظر وزیرِ اعلٰی پنجاب سردار عثمان بزدار بھی خاصے متحرک ہیں اور آئے روز تحریکِ انصاف کے اراکین قومی و پنجاب اسمبلی سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

البتہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پنجاب میں اب تبدیلی آنے کے امکانات بہت روشن ہیں اور حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے ساتھ ساتھ خود تحریکِ انصاف کی اپنی صفوں میں عثمان بزدار کو ہٹانے کے مطالبات میں شدت آ گئی ہے۔

سلمان غنی عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیرِ اعلٰی بنانا عمران خان کی سب سے بڑی سیاسی غلطی قرار دیتے ہیں۔ اُن کے بقول طاقت ور اور انتظامی طور پر بہتر پنجاب حکومت ہی وفاقی حکومت کو سہارا دیتی ہے جس طرح شہباز شریف کے دورِ حکومت میں مرکز میں نواز حکومت کو سپورٹ ملی تھی۔

اگر تحریک انصاف چوہدری پرویز الہٰی کو وزیر اعلٰی بنا دے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے؟

سلیم بخاری کہتے ہیں کہ چوہدری پرویز الہٰی نے منگل کی شب دیے گئے انٹرویو میں عمران خان کے حوالے سے جو کچھ کہا تھا اس کے بعد اب مشکل نظر آتا ہے کہ مسلم لیگ (ق) اور حکومت کے معاملات ٹھیک ہو سکیں۔لیکن چوہدری پرویز الہٰی کے انٹرویو کے اگلے ہی روز وضاحتی بیان کے بعد حکومت کو ایک موقع ملا ہے کہ وہ اب بھی اتحادیوں کو منا لے۔

سلیم بخاری کا کہنا تھا کہ اُن کی حکمراں جماعت کے کچھ اراکینِ اسمبلی سے بات ہوئی ہے جنہیں خدشہ ہے کہ تحریکِ اعتماد میں کہیں اپوزیشن کو 200 اراکینِ اسمبلی کی حمایت نہ مل جائے۔

سینئر تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ حکومتیں بحران حل کرتی ہیں، بحران کا باعث نہیں بنتیں۔ موجودہ حکومت کو خمار تھا کہ وہ اتحادیوں کو نظرانداز کر کے حکومت چلاسکتے ہیں جس پر اتحادی وقتاً فوقتاً اپنے تحفظات کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں۔

سلمان غنی کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان نے اپوزیشن اور اتحادیوں دونوں کو ناراض کر دیا ہے۔ لیکن اب بھی وقت ہے کہ اگر وہ دانش مندی سے کام لیں تو اتحادیوں کو راضی کر کے اپنی باقی ماندہ حکومتی مدت پوری کر سکتے ہیں۔

XS
SM
MD
LG