جب کوئی بحران جنم لیتا ہے تو ادیب اور شاعر حساس ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ عام لوگوں کے لیے المیہ گزر جاتا ہے لیکن ادیب اس سے نکل نہیں پاتے۔ وہ اس کیفیت کو اپنی تحریر میں شامل کرتے ہیں اور اس طرح کی بڑی تخلیقات جنم لیتی ہیں۔
امریکہ میں غلامی کا دور ہو یا جنگ عظیم، روس کا انقلاب ہو یا ہندوستان کی تقسیم، تاریخ دانوں سے زیادہ ادیبوں نے ہمارے شعور میں اضافہ کیا ہے۔ وبا کا دور بھی بڑے المیے جیسا ہوتا ہے۔ گیبرئیل گاشیا مارکیز کا ناول وبا کے دنوں میں محبت آج کل بہت یاد کیا جا رہا ہے۔ شہاب نامہ کا آغاز بھی طاعون کی وبا کے ذکر سے ہوتا ہے۔
ہم ایک بار پھر عالمگیر وبا کا زمانہ دیکھ رہے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ آج کے ادیب کل کے بڑے ادب کو تخلیق کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ لیکن ہمارے ادیب، ہمارے شاعر اس وقت کیا کر رہے ہیں؟ وبا سے کیسے بچ رہے ہیں اور لاک ڈاؤن سے کس قدر متاثر ہو رہے ہیں؟ ہم نے کئی ادیبوں شاعروں سے یہ جاننے کی کوشش کی۔
ادبی جریدے تسطیر کے ایڈیٹر نصیر احمد ناصر نے کہا کہ ان دنوں ہر شخص کرونا وائرس کے بارے میں لکھ رہا ہے لیکن زیادہ تر تحریریں، نثری اور شعری دونوں، وقتی، سطحی یا صحافتی نوعیت کی ہیں۔ میں اس طرح کبھی نہیں لکھ سکتا۔ اتفاق سے میں ان دنوں لکھنے کے موڈ میں بھی نہیں ہوں۔
ان دنوں گھر تک محدود ہونے کی وجہ سے میرا زیادہ وقت مطالعہ کرنے، فلمیں دیکھنے، پسندیدہ موسیقی سننے اور ٹی وی دیکھنے میں گزر رہا ہے۔ مجھے کھانے پکانے کا بھی شوق رہا ہے۔ فراغت کے اس وقت میں وہ بھی پورا کر رہا ہوں۔
نصیر احمد ناصر نے کہا کہ اس بحران میں ادیبوں شاعروں کو لکھنے پڑھنے کے علاوہ عملی طور پر بھی کام کرنا چاہیے۔ جن کی مالی حیثیت مستحکم ہے۔ انھیں نہ صرف ضرورت مند ادیبوں شاعروں کی بلکہ ملنے جلنے والے ضرورت مندوں کی مدد کرنی چاہیے اور یہ کام تشہیر اور کسی کی عزت نفس مجروح کیے بغیر ہونا چاہیے۔ کھانے پینے کی اشیا تحفے کی صورت میں یا خیریت دریافت کرنے کے بہانے ضرورت مند احباب کو پہنچائی جا سکتی ہیں۔ وبائیں آتی رہتی ہیں۔ وبا کے دنوں میں محبت اور انسانیت کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے۔
ممتاز شاعر عرفان ستار نے کہا کہ سوچنے والے تخلیقی ذہنوں کے لیے عالمگیر وبا ایسا جھنجھوڑ دینے والا واقعہ ہے جس کے بعد سوائے کشادہ فکر، ہمہ گیر احساس اور بنی نوع انساں کی مشترکہ بقا کے بارے میں سوچنے کے، کسی اور بات کی گنجائش نہیں رہتی. مذہب، مسلک اور جغرافیائی حد بندیوں سے نکل کر باہمی محبت اور انسانیت کے پرچار کے سوا کوئی راستہ نہیں رہتا۔ اس وبا نے ساری انسانیت کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے۔ اس بات کا ادراک پختہ کیا ہے کہ تکلیف جب سانجھی ہو تو چھوٹی چھوٹی ساری تفریق اور منافرت بے معنی ہو جاتی ہے۔ بڑی انسانی اقدار پر کامل یقین اور پوری عالمی برادری کے مشترکہ دکھ کا احساس کرنا ہر تخلیق کار کی ذمے داری ہے۔
اس وبا کے پھوٹنے کا سبب کوئی بھی ہو لیکن اس سے نبردآزما ہونے کا طریقہ سب کے لیے یکساں ہے۔ تمام بڑے اذہان اس وبا کے گزرنے کے بعد بھی شاید کبھی پہلے کی طرح اپنے اپنے خانوں میں بٹ کر نہیں رہ سکیں گے۔ انسانی آبادی کے لیے کسی ایسی جھنجھوڑ دینے والی طاقت کی ضرورت تھی۔ اس کے نتیجے میں شاید وہ سوچ پروان چڑھے جو اپنی ذات اور اپنے قرب و جوار تک محدود نہ ہو۔ وقت بتائے گا کہ ایسا ہوتا ہے یا حالات معمول پر آتے ہی سب کچھ پہلے جیسا ہو جاتا ہے۔
عرفان ستار نے کہا کہ ذاتی سطح پر مطالعہ اور خود احتسابی کے لیے وقت میسر ہے۔ یہ تمام عوامل ایک تخلیقی ذہن کو بہت کچھ مہیا کر سکتے ہیں۔ اب دیکھیں کون اس سے کتنا فائدہ اٹھاتا ہے۔
ممتاز نقاد حمید شاہد نے کہا کہ میں وبا کے المیے سے نڈھال ہوں۔ میرا ایسا ہی حال کشمیر اور خیبرپختونخوا میں زلزلے کے وقت بھی ہوا تھا۔ ایسے میں میرے دوست ڈاکٹر آصف فرخی کا فون آیا تو کچھ جذباتی سہارا ملا۔ وہ ان دنوں تالابندی کا روزنامچہ لکھ رہے ہیں۔ ان کا یہ جملہ میں نے کئی بار پڑھا اور دوہرایا کہ لکھنا نہ ہوتا تو میں کیا کرتا؟ میرے لیے یہی سزا تجویز کی گئی ہے۔
آصف فرخی نے زلزلے کے بعد اس تباہ کاری کا روزنامچہ لکھا تھا۔ اگر میں بھول نہیں رہا تو اس روزنامچے کا عنوان تھا، بے تابی سے کیا حاصل؟ میں کچھ لکھنے کو بے تاب تھا لیکن میرے تخلیقی عمل نے قدرے بعد میں انگڑائی لی۔ میں نے ایک طویل افسانہ لکھا تھا، ملبہ سانس لیتا ہے۔ خیر یہ تب کی بات ہے۔ اب کیا ہو گا؟ میں نہیں جانتا کہ کچھ لکھ بھی پاﺅں گا یا نہیں۔
حمید شاہد نے کہا کہ جب ترقی یافتہ ملکوں میں حکومتوں کی بے بسی کو دیکھتا ہوں تو اپنے ملک کی بابت سوچنے لگتا ہوں۔ یہاں ہر دن کے گزرنے پر صورت حال سنگین ہو رہی ہے۔ میری پریشانی اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب یہاں کوئی بھی صورت حال کی نزاکت کو ڈھنگ سے سمجھنے کو تیار نہیں ہوتا۔ حکمران ہوں یا اپوزیشن میں بیٹھے سیاست دان، اول تو دونوں بد حواس ہیں یا پھر اپنے سیاسی حسابات چکانے میں لگے ہوئے ہیں۔
منفرد شاعر اور صحافی فاضل جمیلی نے کہا کہ سیلف آئسولیشن کو زمانوں سے شاعروں نے جتنا برتا ہے، شاید ہی کسی ذی روح کے حصے میں یہ ہنر آیا ہو۔ ہم انجمن سمجھتے ہیں، خلوت ہی کیوں نہ ہو۔ سو تنہائی کاٹنا اور تنہائی برتنا شاعروں کے لیے کوئی نئی بات نہیں۔ شاعر کی تو زندگی ہی ہجر کی طولانیوں اور فکر کی جولانیوں میں ہے۔ قید تنہائی شاعر کے لیے انجمن آرائی ہے۔ جب سے کرونا آیا ہے، عالم گیر تنہائی اپنے ساتھ لایا ہے۔ شاعر تو اپنے ساتھ وقت گزارنے کے عادی مجرم تھے لیکن اب لگتا ہے کہ دیگراں بھی اس لذت تنہائی سے آشنائی حاصل کر رہے ہیں۔
وبا کے دن ہوں اور مارکیز کے ناول وبا کے دنوں میں محبت اور تنہائی کے سو سال نہ پڑھے جائیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کے علاوہ بلونت سنگھ کا ناول چک پیراں دا جسا بھی پھر سے پڑھنے کا موقع مل گیا ہے۔ ورک فرام ہوم کے ساتھ ان زمانوں کی سیر ہو رہی ہے جب مشینیں انسانی زندگی میں داخل نہیں ہوئی تھیں۔ دفتر کے کام کے ساتھ اپنی پسندیدہ کتابیں پڑھنے کا موقع میسر ہو تو تنہائی، تنہائی نہیں رہتی، حقیقت میں انجمن آرائی بن جاتی ہے۔
فاضل جمیلی نے بتایا کہ کرونا کی لائی ہوئی تنہائی پر تو کوئی شعر نہیں ہوا لیکن ایک ازل گیر و ابد تاب تنہائی ہمیشہ سے ساتھ چلی آ رہی ہے۔ اس کیفیت کا اظہار بہت پہلے ایک شعر کی صورت میں کر چکا ہوں۔
ملا نہ جب کوئی محفل میں ہم نشینی کو
میں اک خیال کے پہلو میں جا کے بیٹھ گیا