امریکہ کے محکمۂ خارجہ کی طرف سے پاکستان کو انتہائی مطلوب تین دہشت گردوں کی اطلاع دینے پر بھاری انعام کے اعلان کو تجزیہ کار دوطرفہ تعلقات میں ایک مثبت پیش رفت سے تعبیر کر رہے ہیں۔
کالعدم تنظیموں - تحریکِ طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ، جماعت الاحرار کے عبدالولی اور لشکرِ اسلام کے منگل باغ کا شمار اُن دہشت گردوں میں ہوتا ہے جو پاکستان کے سکیورٹی اداروں کو انتہائی مطلوب ہیں۔
واضح رہے کہ امریکہ نے پہلے ہی فضل اللہ کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کر رکھا ہے۔
انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز اسلام آباد میں امریکہ سے متعلق اُمور کے ڈائریکٹر نجم رفیق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ پاکستانی طالبان کمانڈروں کی اطلاع دینے پر اعلان سے دوطرفہ تعاون میں بہتری آ سکتی ہے۔
’’پاکستان بڑے عرصے سے یہ کہتا آیا ہے کہ تحریکِ طالبان پاکستان، ملک کی سالمیت کے خلاف کام کر رہی ہے۔ میرے خیال میں یہ ایک نہایت مثبت قدم ہے امریکہ کی جانب سے۔ کم از کم پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ یہ اقدام اعتماد سازی کی کوششوں میں بھی مدد گار ثابت ہو سکتا ہے۔
’’ظاہر ہے امریکہ نے ایک قدم آگے کی طرف بڑھایا ہے تو یہ مثبت قدم ہی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جو تعلقات خراب ہوتے نظر آ رہے تھے، یہ اقدام تعاون کا ایک مزید ذریعہ بن سکتا ہے۔‘‘
تجزیہ کار حسن عسکری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ اس فیصلے سے بظاہر یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ امریکہ بتدریج پاکستان کے تحفظات کو دور کر رہا ہے۔
’’پاکستان کے دو بڑے تحفظات ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ پاکستانی طالبان وہاں (افغانستان) میں ہیں، انھی کی قیادت پر امریکہ نے سر کی قیمت رکھی ہے۔ یہ مکمل حل نہیں ہے۔ بتدریج ایک قدم ہے۔ اور دوسرا بھارت کا کردار ہے۔ تو اس طرح امریکہ بتدریج پاکستان کے تحفظات کو ایڈریس کر رہا ہے۔‘‘
حسن عسکری کا کہنا تھا کہ ان اقدامات سے دونوں ملکوں کے درمیان تعاون کی راہ ہموار ہو گی۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی طرف سے فضل اللہ کے بارے میں اطلاع پر 50 لاکھ ڈالر جب کہ عبدالولی اور منگل باغ سے متعلق معلومات کی فراہمی پر 30، 30 لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کیا گیا ہے۔
یہ تینوں شدت پسند نہ صرف پاکستان میں بلکہ امریکی اہداف پر حملوں میں بھی ملوث رہے ہیں۔
پاکستان، افغانستان میں تعینات امریکہ کی زیرِ قیادت غیر ملکی افواج ’ریزولوٹ سپورٹ مشن‘ اور کابل حکومت سے مطالبہ کرتا رہا ہے کہ وہ افغان سرزمین پر موجود پاکستانی طالبان کی پناہ گاہوں کے خلاف کارروائی کرے۔
اس کے برعکس امریکہ اور کابل حکومت پاکستانی سرزمین پر افغان طالبان بشمول حقانی نیٹ ورک کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
حال ہی میں پاکستانی اور امریکی حکام کے درمیان رابطوں اور دونوں جانب سے سامنے والے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد ایک دوسرے کے تحفظات کو دور کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
دریں اثنا قومی اسمبلی میں ایک تحریری جواب میں وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا کہ پاکستان امریکہ کےساتھ باہمی احترام اور اعتماد پر مبنی فعال تعلقات پر یقین رکھتا ہے کیوں کہ یہ خطے کے مفاد میں ہیں۔