اسلام آباد —
پاکستانی طالبان نے فائر بندی میں 10 اپریل تک توسیع کا اعلان کیا ہے، بظاہر یہ فیصلہ حکومت کی طرف سے غیر عسکری قیدیوں کے ایک گروپ کی رہائی کے بعد کیا گیا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک بیان کہا کہ میں اُن کی تنظیم نے ذمہ دارانہ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مطالبات کے سلسلے میں ’’حکومت کے جواب کے انتظار میں 10 اپریل تک فائر بندی میں توسیع کی ہے۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ تمام جنگجوؤں کو حکم دیا گیا ہے اس عرصے کے دوران حکومت اور سکیورٹی فورسز پر حملے نا کیے جائیں۔
وزارت داخلہ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وزیرستان میں معمولی نوعیت کے جرائم میں ملوث 16 قیدیوں کو رہا کیا گیا۔
طالبان نے حکومت سے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے یکم مارچ کو ایک ماہ کی فائر بندی کا اعلان کیا تھا، جو یکم اپریل کو ختم ہو گئی تھی۔
گزشتہ ماہ کے اواخر میں حکومت کی چار رکنی کمیٹی نے قبائلی علاقے میں نامعلوم مقام پر پہلی مرتبہ طالبان کی شوریٰ سے براہ راست مذاکرات کیے تھے۔
طالبان کے رابطہ کار مولانا سمیع الحق کہہ چکے ہیں کہ تحریک طالبان کی طرف سے تین سے چار سو غیر عسکری قیدیوں کی رہائی کے لیے کہا گیا ہے۔
حکومت کی طرف سے تاحال اس بارے میں واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے تاہم عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ خواتین اور بچے سکیورٹی فورسز کی قید میں نہیں ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف کے معاون برائے قومی اُمور عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ طالبان کی طرف سے مطالبات پر غور کیا جا رہا ہے۔
’’کچھ جو چیزیں قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے سامنے آئی ہیں اُن کی طرف سے اُن پر غور و خوض ہو رہا ہے۔ اُن کی تحقیق ہو رہی ہے اور اس بارے میں جو تعطل کا تاثر مل رہا ہے وہ بہت جلد دور ہو جائے گا۔‘‘
تجزیہ کار خادم حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ طالبان کی طرف سے مزید مطالبات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔
’’بظاہر یہ لگتا ہے کہ کچھ عرصے تک فائر بندی ہو گی اور دھماکے کم ہو جائیں گے اُن کی طرف سے۔ لیکن یہ کچھ دیر کے لیے ہو گا، اُس کے بعد جو مزید مطالبات سامنے آئیں گے وہ پاکستان کی ریاست کے لیے (ماننا) شاید ممکن نا ہوں۔‘‘
اُدھر جمعہ کو اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، جس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل بھی شریک تھے۔
اجلاس میں طالبان سے مذاکرات اور ملک کی مجموعی صورت حال پر غور کیا گیا۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے ایک بیان کہا کہ میں اُن کی تنظیم نے ذمہ دارانہ عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے مطالبات کے سلسلے میں ’’حکومت کے جواب کے انتظار میں 10 اپریل تک فائر بندی میں توسیع کی ہے۔‘‘
ترجمان نے کہا کہ تمام جنگجوؤں کو حکم دیا گیا ہے اس عرصے کے دوران حکومت اور سکیورٹی فورسز پر حملے نا کیے جائیں۔
وزارت داخلہ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وزیرستان میں معمولی نوعیت کے جرائم میں ملوث 16 قیدیوں کو رہا کیا گیا۔
طالبان نے حکومت سے مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کے لیے یکم مارچ کو ایک ماہ کی فائر بندی کا اعلان کیا تھا، جو یکم اپریل کو ختم ہو گئی تھی۔
گزشتہ ماہ کے اواخر میں حکومت کی چار رکنی کمیٹی نے قبائلی علاقے میں نامعلوم مقام پر پہلی مرتبہ طالبان کی شوریٰ سے براہ راست مذاکرات کیے تھے۔
طالبان کے رابطہ کار مولانا سمیع الحق کہہ چکے ہیں کہ تحریک طالبان کی طرف سے تین سے چار سو غیر عسکری قیدیوں کی رہائی کے لیے کہا گیا ہے۔
حکومت کی طرف سے تاحال اس بارے میں واضح موقف سامنے نہیں آیا ہے تاہم عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ خواتین اور بچے سکیورٹی فورسز کی قید میں نہیں ہیں۔
وزیراعظم نواز شریف کے معاون برائے قومی اُمور عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ طالبان کی طرف سے مطالبات پر غور کیا جا رہا ہے۔
’’کچھ جو چیزیں قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے سامنے آئی ہیں اُن کی طرف سے اُن پر غور و خوض ہو رہا ہے۔ اُن کی تحقیق ہو رہی ہے اور اس بارے میں جو تعطل کا تاثر مل رہا ہے وہ بہت جلد دور ہو جائے گا۔‘‘
تجزیہ کار خادم حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ طالبان کی طرف سے مزید مطالبات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔
’’بظاہر یہ لگتا ہے کہ کچھ عرصے تک فائر بندی ہو گی اور دھماکے کم ہو جائیں گے اُن کی طرف سے۔ لیکن یہ کچھ دیر کے لیے ہو گا، اُس کے بعد جو مزید مطالبات سامنے آئیں گے وہ پاکستان کی ریاست کے لیے (ماننا) شاید ممکن نا ہوں۔‘‘
اُدھر جمعہ کو اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا، جس میں فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل بھی شریک تھے۔
اجلاس میں طالبان سے مذاکرات اور ملک کی مجموعی صورت حال پر غور کیا گیا۔