اسلام آباد —
وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق جنوبی وزیرستان سے 16 ’’غیر عسکری طالبان‘‘ قیدیوں کو رہا کیا گیا ہے جن کا تعلق محسود قبیلے سے ہے۔
تاہم دوسری جانب وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک بیان میں ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ لوگ عام جرائم میں ملوث تھے اور ان کی رہائی کو غلط انداز میں طالبان قیدیوں کی رہائی سے منسلک کیا گیا۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ وزیراعظم نے ان کی رہائی کی منظوری نہیں دی۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سابق قانون ساز مولانا صالح شاہ کے مطابق ان کے تعاون سے ان قیدیوں کی رہائی ممکن ہوئی۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا اس بارے میں کہنا تھا۔
’’یہ وہ لوگ ہیں جو مختلف آپریشن میں پکڑے گئے اور ایسے کئی دوسرے بے قصور قیدی ہیں۔’‘
طالبان کے نامزدکردہ رابطہ کار پروفیسر محمد ابراہیم نے بھی قیدیوں کی رہائی پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت یا طالبان کی طرف سے انہیں آگاہ نہیں کیا گیا۔ تاہم وہ قیدیوں کی رہائی کو حکومت اور طالبان میں اعتماد سازی کے لیے اہم قدم قرار دیتے آئے ہیں۔
طالبان سے دوسری نشست، ان کے مطالبات اور جنگ بندی کی توسیع کے باضابطہ اعلان سے متعلق امور پر نواز شریف انتظامیہ میں مشاورت کا عمل جاری ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ جمعہ کو وزیراعظم کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوگا جس میں طالبان سے مذاکرات سے متعلق امور پر بات چیت کے بعد آئندہ کی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا۔
جمعرات کو ایک تقریب سے خطاب میں شدت پسندوں کی طرف سے جاری خونریزی کو فساد قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نواز انتظامیہ مذاکرات کے ذریعے اسے ختم کرنے میں پرعزم ہے۔
’’اسلام دلائل کا مذہب ہے، گالی دینے کا مذہب نہیں۔ گولی مارنے کا مذہب نہیں، معاف کرنے کا مذہب ہے۔ جو منبر پر آتا ہے عقل کل بن جاتا ہے۔ میں جو بات کہتا ہوں اسے بندوق کے زور سے، اقتدار کے زور سے دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
وفاقی وزیر نے ملک میں جاری جان لیوا شدت پسندی کا ذمہ دار اسلام آباد کے اس فیصلے کو قرار دیا جس کے تحت پاکستان دہشت گردی کے امریکی جنگ کا حصہ بنا۔
تاہم حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علما اسلام (ف) کے قانون ساز نواز انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں کہتے ہیں۔
’’ایک طرف سے ہم کولیشن فنڈ لیں تو اس کا مطلب اس عمل میں ہم ساتھ ہیں۔ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے کہ پالیسی شراکت کی ہو اور کرایہ رفاقت کا لیں اور قانون انسداد کا بنائیں۔‘‘
تاہم دوسری جانب وزیراعظم ہاؤس سے جاری ایک بیان میں ایک غیر ملکی خبر رساں ایجنسی کی خبر کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ لوگ عام جرائم میں ملوث تھے اور ان کی رہائی کو غلط انداز میں طالبان قیدیوں کی رہائی سے منسلک کیا گیا۔
بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ وزیراعظم نے ان کی رہائی کی منظوری نہیں دی۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سابق قانون ساز مولانا صالح شاہ کے مطابق ان کے تعاون سے ان قیدیوں کی رہائی ممکن ہوئی۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا اس بارے میں کہنا تھا۔
’’یہ وہ لوگ ہیں جو مختلف آپریشن میں پکڑے گئے اور ایسے کئی دوسرے بے قصور قیدی ہیں۔’‘
طالبان کے نامزدکردہ رابطہ کار پروفیسر محمد ابراہیم نے بھی قیدیوں کی رہائی پر لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت یا طالبان کی طرف سے انہیں آگاہ نہیں کیا گیا۔ تاہم وہ قیدیوں کی رہائی کو حکومت اور طالبان میں اعتماد سازی کے لیے اہم قدم قرار دیتے آئے ہیں۔
طالبان سے دوسری نشست، ان کے مطالبات اور جنگ بندی کی توسیع کے باضابطہ اعلان سے متعلق امور پر نواز شریف انتظامیہ میں مشاورت کا عمل جاری ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ جمعہ کو وزیراعظم کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوگا جس میں طالبان سے مذاکرات سے متعلق امور پر بات چیت کے بعد آئندہ کی حکمت عملی کا اعلان کیا جائے گا۔
جمعرات کو ایک تقریب سے خطاب میں شدت پسندوں کی طرف سے جاری خونریزی کو فساد قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نواز انتظامیہ مذاکرات کے ذریعے اسے ختم کرنے میں پرعزم ہے۔
’’اسلام دلائل کا مذہب ہے، گالی دینے کا مذہب نہیں۔ گولی مارنے کا مذہب نہیں، معاف کرنے کا مذہب ہے۔ جو منبر پر آتا ہے عقل کل بن جاتا ہے۔ میں جو بات کہتا ہوں اسے بندوق کے زور سے، اقتدار کے زور سے دوسروں پر مسلط کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
وفاقی وزیر نے ملک میں جاری جان لیوا شدت پسندی کا ذمہ دار اسلام آباد کے اس فیصلے کو قرار دیا جس کے تحت پاکستان دہشت گردی کے امریکی جنگ کا حصہ بنا۔
تاہم حکومت کی اتحادی جماعت جمعیت علما اسلام (ف) کے قانون ساز نواز انتظامیہ کی پالیسی کے بارے میں کہتے ہیں۔
’’ایک طرف سے ہم کولیشن فنڈ لیں تو اس کا مطلب اس عمل میں ہم ساتھ ہیں۔ دونوں ایک ساتھ نہیں چل سکتے کہ پالیسی شراکت کی ہو اور کرایہ رفاقت کا لیں اور قانون انسداد کا بنائیں۔‘‘