پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے جنگلات کے تحفظ کے ایک سرکاری کارپوریشن کو ختم کردیا ہے۔
آمدنی کی غرض سے لکڑی کی مصنوعات تیار اور فروخت کے لیے قائم کی گئی پچاس سالہ آزاد کشمیر لاگنگ اینڈ ساملز کارپوریشن المعروف اکلاس (AKLASC) پاکستانی کشمیر کے جنگلات سے تجارتي اور عمارتی لکڑی پاکستان فروخت کرتی تھی ۔ کارپوریشن کی سرگرمیوں کے نتیجے میں جنگلات کا رقبہ 40 فی صدسے گھٹ کر محض 15 فی صد پر آ گیا۔
سن 1988 میں سبز درختوں کی تجارتی مقاصد کے لیے کٹائی پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن اکلاس کی سرگرمیاں مختلف بنیادوں پر جاری رہیں۔
پاکستانی کشمیر کے محکمہ جنگلات کے عہدیدار ملک اسد نے وائس آف امریکہ بتایا کہ اکلاس کے پاس سبز جنگل کو محفوظ بناتے ہوئے بیمار اور گرے ہوئے درختوں کو وہاں سے باہر نکالنے کی مہارت نہیں تھی اور پھر دوسری جانب اسے جنگلات میں چند ماہ کے لیے دی جانے والی کام اجازت کو مختلف حیلوں بہانوں سے 30 سال تک بڑھا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ 1985 کے بعد حکومتی عہدے داروں نے نوکریاں دینے کے چکر میں کارپوریشن کے ملازمین کا حجم اس قدر بڑھا دیا کہ ان کے لیے تنخواہوں کا بندوبست کرنا تک دشوار ہو گیا۔
تاہم پاکستانی کشمیر کی حکومت نے کہا ہے کہ اکلاس کی ملکیت اسلام آباد کے ایک پوش علاقے میں اکلاس کے ملکتی اربوں روپے مالیت کا یک پلاٹ فروخت کر کے کارپوریشن کے ملازموں کے واجبات اور پنشن ادا کی جائے گی، جس کے لیے وہ گزشتہ کئی ماہ سے احتجاج کر رہے تھے ۔
حکومت نے اکلاس کے14 سو سے زائد ملازمین اور پنشنرز کو گولڈن ہینڈ شیک کے تحت سبکدوش کر دیا ہے ۔جب کہ 50 سے زائد ملازمین کارپوریشن کے اثاثہ جات اور جنگلوں میں اس کی محفوظ کر دہ عمارتی اور تجارتی لکڑی کو محکمہ جنگلات کے حوالے کرنے کے لیے چھ ماہ تک فرائض انجام دیتے رہیں گے۔
محکمہ جنگلات کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اکلاس کے ٹھیکیدار ایک مافیا بن چکے تھے ۔اور غیر قانونی کٹاؤ کے ثبوت مٹانے کے لیے جنگلات کو آگ لگا دیتے تھے۔
ماہرین ماحولیات نے اکلاس کے خاتمے کو سہرا تے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام جنگلات کے تحفظ میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔