رسائی کے لنکس

اصلاحات سے کام نہیں چلے گا، پاکستان کا عدالتی نظام یکسر بدلنا ہو گا: ماہرین


سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت، اسلام آباد (فائل فوٹو)
سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت، اسلام آباد (فائل فوٹو)

پاکستان کے قانونی ماہرین اکثر یہ کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں کہ پاکستان کا عدالتی نظام نوآبدیاتی دور کا ہے۔ اس وقت کا جب بر صغیر پر انگریزوں کی حکومت تھی اور انہوں نے اپنی نوآبادی کے لیے اپنی ضرورتوں کے مطابق یہ نظام قائم کیا تھا جو ماہرین کے مطابق اس سے قطعی مختلف تھا جو خود ان کے اپنے ملک میں قائم تھا۔

اگرچہ پاکستان کے عدالتی نظام میں بر صغیر کی آزادی کے بعد سےوقتًا فوقتاٍ تبدیلیاں بھی لائی جاتی رہیں نئے قوانین بھی بنائے گئے ہیں، لیکن ملک میں ایک بڑا طبقہ انصاف کی فراہمی کے عمل سے مطمئن نظر نہیں آتا۔ خاص طور پر جب انصاف کے حصول میں تاخیر، کسی مقدمے پر آنے والے بھاری اخراجات اور منصفین کے لیے جواب دہی کا کوئی معقول نظام نہ ہونے کے بارے میں شکائتیں عام ہیں۔

ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی رول آف لا انڈیکس 2021 میں پاکستان کی عدلیہ کو 139 ملکوں کی فہرست میں130 نمبر پر رکھا گیا ہے ۔ اس پس منظر میں قانون کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے اب معاملہ اصلاحات سے آ گے نکل گیا ہے اور اس نظام کو مکمل طور سے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔

سینیٹر علی ظفر کا تعلق حکمراں جماعت تحریک انصاف سے ہے۔ وہ سینٹ کی لاء اینڈ جسٹس کمیٹی سے منسلک ہیں۔ پاکستان سپریم کورٹ بار کے صدر رہ چکے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اب پاکستان کا عدالتی نظام وہاں پہنچ گیا ہے جہاں اصلاحات اور قانون میں تبدیلیوں یعنی کاسمٹکس تبدیلیوں سے کام نہیں چلے گا۔ بلکہ اسے پورے طور پر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس میں سب سے اہم تبدیلی پروسیجر یا طریقہ کار میں ہونی چاہئیے۔

وہ کہتے ہیں کہ قانون تو آپ بنا دیتے ہیں لیکن ان قوانین کا عملی اطلاق اسی طریقہ کار کے مطابق ہوتا ہے کہ مقدمہ اس انداز میں چلے کہ انصاف کے تقاضے بھی پورے ہوں اور انصاف بھی جلد ملے۔

سینیٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ قاعدہ جاتی اصلاحات کے ساتھ انصاف کا ایک متوازی نظام بھی وضع کرنا پڑے گا۔ جیسا کہ امریکہ سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں میں ہے۔ اور یہ ہے ثالثی کا نظام۔ اس سے ملک کے عدالتی نظام پر بوجھ کم ہو جاتا ہے اور فیصلے جلدی ہو سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان دونوں نظاموں کے باوجود بھی یہ نظام اس وقت تک معیاری اور عام آدمی کے مفاد میں نہیں ہو سکتا جب تک ملک میں ججوں کی تربیت، ان کی تعداد، وکلا کی تربیت اور ان کے معیار کو بہتر نہیں بنایا جائے گا۔

مختلف ادوار میں برسر اقتدار رہنے والی حکومتوں نے قوانین میں تبدیلیاں تو کیں، نئے قوانین بھی بنائے، مگر ماہرین کے بقول اس نظام کی بنیادی خامیوں کو دور کرنے کی کوئی شعوری کوشش گزشتہ برسوں اور عشروں میں نظر نہیں آتی۔

پاکستان: عدالتی نظام میں فرانزک سائنس کیسے مدد کر رہی ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:26 0:00

علی ظفر کا کہنا تھا کہ موجودہ دور میں بھی اصلاح احوال کی کوششیں تو ہو رہی ہیں مگر نظام کو تبدیل کرنے کے لیے جو کچھ کیا جانا چاہئیے تھا وہ نہیں ہو سکا۔ لیکن کوششیں ہو رہی ہیں اور اس حوالے سے ایک کمیٹی بھی کام کر رہی ہے۔ اور ا س کے لیے ضروری ہے کہ جو ملک کی عدلیہ ہے، قانونی پیشے تعلق رکھنے والی تنظیمیں ہیں، بڑے وکلا ہیں، ان سب کو ایک جگہ جمع کیا جائے اور اتفاق رائے سے عدالتی نظام میں تبدیلی کے لیے اصلاحات لائی جائیں۔ چونکہ ابھی تک ایسا نہیں ہوسکا ہے، اس لیے اصلاحات کا عمل بھی کسی منزل تک نہیں پہنچ سکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب سینٹ کی لا اینڈ جسٹس کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ کمیٹی ان قوانین کے سلسلے میں جن میں عمل درآمد کی ضرورت ہے۔ خود ان پر نظر رکھے گی اور یہ یقینی بنانے کی کوشش کرے گی کہ ان پر عمل درآمد ہو۔ اگر اس میں کچھ رکاوٹیں آتی ہیں تو انہیں دور کیا جا سکے۔

ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کو جو عدالتی نظام ورثے میں ملا ہے، وہ ایک نو آبادیاتی طاقت کا دیا ہوانظام ہے جو ایک آزاد ملک اور آج کے دور کی ضرورتوں سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

قاضی مبین پاکستان کے ایک ممتاز ماہر قانون ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نظام کی بہتری کے لیے یقیناً کوششیں ہو رہی ہیں، لیکن اس میں ایک بڑی رکاوٹ جوڈیشیل افسران، خاص طور سے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے تقرر کا طریقہ کار ہے۔ جس میں اصلاح کی ضرورت ہے۔ دوسرا سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کی عدلیہ کی جواب دہی کاہے۔ خاص طور سے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کی جواب دہی کا معاملہ۔ ہر چند کہ آئین کی دفعہ 209 کے تحت اس مقصد کے لیے سپریم جوڈیشیل کونسل بنائی گئی ہے۔ لیکن اس کی کارکردگی بھی کوئی مثالی نہیں ہے۔ بس دو چار ججوں ہی کا محاسبہ اس جوڈیشیل کونسل نے کیا ہے۔ اس قانون کو بھی دوبارہ بنائے جانے کی ضرورت ہے کیونکہ جب سپریم جوڈیشیل کونسل میں شامل حاضر سروس جج صاحبان اکثریت میں ہوں گے اور حکومتی یا بار کے نمائندوں کی تعداد محدود ہو گی تو وہ جج اپنے ہی ساتھیوں کا محاسبہ کیسے کریں گے۔اگر کوئی جج غلط کاری کا مرتکب پایا جائے گا، تو بجائے اس کے کہ اس کے خلاف کارروائی ہو، اس سے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ استعفی دے کر اور اپنی ریٹائرمنٹ کی مراعات لے کر گھر چلا جائے، تو یہ کیا سزا ہوئی جو دوسرے ججوں کے لیے عبرت کا سبب بن سکے۔

قاضی مبین نے کہا کہ اس کے علاوہ ہمارے عدالتی نظام میں اعلیٰ عدالتوں کے ججوں کے دیے ہوئے فیصلوں کے آڈٹ کا نظام بھی ہونا چاہئیے، جس میں غیر جانبدار ماہرین اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا فیصلے قانونی میرٹ کے مطابق ہو رہے ہیں۔ اور کیا کسی جج کے فیصلے میں ایک ہی مسئلے پر دیے گئے اس کے ایک سے زیادہ فیصلوں میں عدم مطابقت تو نہیں ہے، اور اگر ہے تو کیا اس کا کوئی قانونی جواز موجود ہے۔

قاضی مبین کا کہنا تھا کہ قانون سازی کے لیے ماہرین کی رائے اور عوامی سماعتوں کی ضرورت کو مد نظر رکھا جانا چاہئیے۔ اور اعلیٰ عدالتوں کو جب اپنے رولز خود بنانے کا اختیار دیا جائے گا تو وہ عام آدمی کی بجائے اپنی سہولت کو پیش نظر رکھیں گی۔ اس لیے اعلیٰ عدالتوں کے رولز بنانے کا کام ماہرین کے کسی غیرجانبدار پینل کو دیا جانا چاہئیے۔تب جا کر یہ عدالتی نظام ایک معیاری نظام بن سکے گا جس پر عوام کو بھرپور اعتماد ہو۔

عدلیہ اپنا کردار بخوبی نبھا رہی ہے

ادھر پاکستان سپریم کورٹ بار کے سابق صدر امان اللہ کنرانی نے اس بارے میں وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے بہت سے معاملات میں عدلیہ کا کردار عوام کے لیے اہم ہے اور عوام کی ضرورت ہے۔ بطور ایک ادارہ جوڈیشیری کا رول بہت اہمیت رکھتاہے۔

امان اللہ کنرانی کا کہنا تھا کہ کہ عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے اور انکے نفاذ کے لیے جوڈیشیری سے زیادہ موثر ادارہ اور کوئی نہیں ہے جہاں ہر شخص اپنی شکایت لے کر بہ آسانی جاسکتا ہے جہاں آئین اور قانون کے مطابق اس کی شنوائی ہوتی ہے۔

1973 کے آئین کے تحت بنیادی حقوق کے نفاذ کی اپنی ذمہ داری کو ملک کی عدلیہ نے بخوبی نبھایا ہےاور عوام کو اس پر بھروسہ رکھنا چاہئیے کہ ان کے حقوق کا دفاع کرنے والا سب سے موثر ادارہ یہ ہی ہے۔ اس کے بعض افراد سے یا بعض فیصلوں سے اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن بطور مجموعی یہ ادارہ انتہائی اہم اور عام آدمی کی ضرورت ہے

XS
SM
MD
LG