رسائی کے لنکس

'یقین نہیں آتا کہ ساجد کی ہلاکت حادثہ یا خودکشی تھی'


رزاق سربازی اور ساجد حسین سوئیڈن میں بلوچی ڈکشنری کی ایک ورکشاپ میں۔ فائل فوٹو
رزاق سربازی اور ساجد حسین سوئیڈن میں بلوچی ڈکشنری کی ایک ورکشاپ میں۔ فائل فوٹو

کئی پاکستانی صحافی جو اسی اور نوے کی دہائی میں پاکستان میں صحافت کے شعبے سے منسلک رہ چکے ہیں، اب کئی برسوں سے دنیا کے مختلف ملکوں میں پناہ لے کر زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے ہی ایک صحافی ساجد حسین کی حال ہی میں سوئیڈن میں ہونے والی ہلاکت کی خبر کے بعد ایک بار پھر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

"سمجھ میں نہیں آ رہا کس طرح یہ واقعہ پیش آیا۔ مارچ میں اپسلا کی اس نہر میں پانی بہت ٹھنڈا ہوتا ہے۔ میں کبھی اس میں غوطہ لگانے کا نہیں سوچ سکتا۔ انہیں مار کر پانی میں پھینکا گیا تاکہ تشدد کا نشان نہ رہے۔ لیکن میں صرف اندازے لگا سکتا ہوں"۔

یہ الفاظ سوئیڈن کے شہر اپسلا میں مردہ پائے گئے پاکستانی صحافی ساجد حسین کے قریبی ساتھی رزاق سربازی کے ہیں۔

سربازی پاکستان میں صحافت کے شعبے سے منسلک رہ چکے ہیں۔ اور اب گزشتہ پانچ سال سے سوئیڈن کے شہر اپسلا میں مقیم ہیں۔ جہاں ان کی آخری ملاقات ساجد حسین سے فروری میں ہوئی تھی۔

"میں انہیں کراچی سے جانتا ہوں۔ 2019 میں انہیں سیاسی پناہ ملی تو وہ مجھے بتانے آئے۔ وہ جب بھی اپسلا آتے تھے، اکثر ان کی رہائش میرے پاس ہی ہوتی تھی۔ فروری 2020 میں جب وہ مجھ سے ملے تو انہوں نے بتایا کہ انہیں اپسلا میں ایک چھوٹا سا گھر مل گیا ہے اور وہ اپسلا شفٹ ہو رہے ہیں۔ "

رزاق سربازی کہتے ہیں کہ ساجد حسین 2017 میں سوئیڈن آئے تھے۔ اور آتے ہی ان سے ملے تھے۔ لیکن کبھی کسی ملاقات میں انہوں نے ان سے یہ ذکر نہیں کیا کہ ان کا تعاقب کیا گیا ہو یا انہیں کسی قسم کا کوئی خوف ہو۔

رزاق سربازی کہتے ہیں کہ ساجد حسین سوجھ بوجھ رکھنے والے شخص تھے اور اپسلا یونیورسٹی سے منسلک ہو چکے تھے، جہاں انہوں نے بلوچی اردو ڈکشنری پر کام کیا جسے آن لائن بھی جاری کر دیا گیا تھا۔

سربازی کا کہنا ہے کہ پولیس کی اب تک کی تفتیش سے جو تاثر ملتا ہے اس کے مطابق ساجد حسین کی موت ایک حادثہ یا خودکشی ہے جسے وہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

"انہوں نے جو پلان بنایا ہوا تھا کہ سوئیڈش زبان سیکھنی ہے۔ یونیورسٹی میں ماسٹرز کا کوئی کورس کرنا ہے، تو ساری چیزیں ترتیب سے جا رہی تھیں اور اپسلا میں ان کو کرائے پر گھر بھی مل چکا تھا اور نئے گھر میں پہلا قدم رکھتے ہوئے کونسا بدبخت ہو گا جو خود کشی کا سوچے۔ جب کہ اس کے کام جو ہیں وہ پلان کے حساب سے آگے بڑھ رہے ہوں۔"

رزاق سربازی کے مطابق سوئیڈن میں صحافت کا تقدس قائم ہے۔ لوگ صحافی کا احترام کرتے ہیں۔ تاہم ساجد حسین کی ہلاکت کے بعد رزاق سربازی کہتے ہیں کہ انہیں نہ صرف اپنی زندگی کے بارے میں خوف لاحق ہے بلکہ پاکستان سے ہجرت کر کے دیگر ملکوں میں رہنے والے صحافیوں کے لیے بھی زندگی محفوظ نہیں رہی۔

سوئیڈن آنے سے پہلے رزاق سربازی پاکستان کے شہر کراچی میں ایک روزنامے ’توار‘ سے منسلک تھے۔ توار بلوچی زبان میں آواز یا صدا کو کہتے ہیں۔

2006 میں یہ اخبار کراچی سے چھپنا شروع ہوا جس کے بعد رزاق سربازی کے مطابق "توار کے ایک رپورٹر رزاق گل کیچ سے اٹھائے گئے اور انہیں قتل کر کے پھینک دیا گیا۔ پھر توار کا ایڈیٹوریل صفحہ سنبھالنے والے جاوید نصیر رند غائب ہوئے۔ چند مہینے بعد ان کی لاش مسخ حالت میں ملی۔ اس کے بعد توار کے ایک اور ملازم حاجی رزاق کا قتل ہوا جو اس اخبار کے سب ایڈیٹر تھے“۔

رزاق سربازی کے مطابق توار میں وہ نیوز ایڈیٹر ہونے کے ناتے بلوچی سیاست اور خاص طور سے لاپتا بلوچوں کے بارے میں زیادہ لکھتے تھے۔ 2012 میں جب انہوں نے بلوچ لبریشن فرنٹ کے رہنما ڈاکٹر اللہ نذر کا انٹرویو کیا تو اس کے کچھ دن بعد ان کے چھوٹے بھائی اچانک غائب ہو گئے۔ نو دن بعد وہ مل گئے مگر بعد میں توار کے دفتر کو ایک رات اچانک آگ لگ گئی۔ سب کچھ جل گیا۔ جس کے بعد توار کو ہمیشہ کے لیے بند کر دیا گیا۔

رزاق سربازی کہتے ہیں توار کا قصور یہ تھا کہ "اگر ہڑتال ہو تو عموماً اخبار کی سرخی جمتی تھی ملک گیر ہڑتال۔ ہم اسے پاکستان میں ہڑتال لکھتے تھے۔ اسی طرح پاکستان کے بانی کا ذکر جناح کے نام سے کیا جاتا تھا، قائدِ اعظم کے نام سے نہیں اور پاکستانی فوج کے بارے میں سخت زبان میں حقائق لکھے جاتے تھے۔ لیکن گالی گلوچ کبھی نہیں کی گئی تھی۔"

توار کے بند ہو جانے کے بعد رزاق سربازی سوئیڈن کیسے پہنچے، یہ وہ نہیں بتانا چاہتے۔ تاہم اب وہ پناہ لیے ہوئے ہیں اور ایک ویب سائٹ چلاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دھمکیوں نے ان کا پیچھا سوئیڈن میں بھی نہیں چھوڑا۔

"ساجد حسین کی موت سے پہلے ہی میں بہت محتاط ہو گیا تھا۔ میں ایک ویب سائٹ چلاتا ہوں جو ورڈ پریس کے پلیٹ فارم پر ہے۔ 2016 میں مجھے فیس بک پر کھلم کھلا دھمکیاں موصول ہو چکی ہیں جن میں میرے بیوی بچوں کا ذکر تھا۔ میں ان دھمکیوں کا جواب بھی دے دیا کرتا تھا۔ پھر میں نے فیس بک پر کچھ بھی لکھنا چھوڑ دیا۔ 2018 میں مجھے ورڈ پریس کی جانب سے ایک ای میل میں بتایا گیا کہ میں جو ویب سائٹ ان کے پلیٹ فارم کے ذریعے چلا رہا ہوں، اس پر موجود مواد کو پاکستانی حکومت کی جانب سے توہینِ رسالت کے زمرے میں ڈالتے ہوئے پاکستان میں اس پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ پاکستان میں یہ ویب سائٹ اب نہیں کھلتی۔ لیکن میں اب بھی اس پر کام کر رہا ہوں اور یوں پاکستان میں مجھ پر 295۔سی عائد ہوتی ہے۔"

رزاق سربازی کہتے ہیں کہ پاکستان سے ان جیسے کئی صحافی جو اپنی جان بچا کر غیر ملکوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں، انہیں اب وہاں بھی زندگی محفوظ نظر نہیں آ رہی۔ ساجد حسین کی ہلاکت کی تفتیش کا یہ تاثر غلط ہے کہ یہ ایک حادثہ یا خودکشی ہے۔ اس لیے غیر جانب دار اداروں اور صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کو اس معاملے کی تفتیش کرنی چاہیے۔

XS
SM
MD
LG