سعودی عرب میں اتوار کو ہونے والی اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کے وزرائے دفاع کی کانفرنس میں شرکت کے لیے وزیر دفاع خرم دستگیر اور وزارت دفاع کے ایڈیشنل سیکرٹری رئیر ایڈمرل فیصل رسول لودھی ہفتے کو سعودی عرب جائیں گے۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ہونے والی کانفرنس میں انسداد دہشت گردی کے لیے قائم اسلامی ممالک کے اتحاد میں شامل 41 ملکوں کے وزرائے دفاع شریک ہوں گے۔
یہ اس اتحاد کا پہلا اجلاس ہو گیا جس کا موضوع ' دہشت گردی کے خلاف اتحاد ' ہے۔
یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب سعودی عرب اور اس کے روایتی حریف ملک ایران کی باہمی مخاصمت کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں صورت حال انتہائی کشیدہ ہے۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ اس اتحاد کا ایک سرگرم رکن ہونے کے ناطے مشرق وسطیٰ کی سیاست کے تناظر میں پاکستان کا جھکاؤ مزید سعود ی عرب کے طرف بڑھ جائے گا۔
تاہم بتایا گیا ہے کہ یہ اتحاد صرف انسداد دہشت گردی کے لیے ہو گا اور پاکستان کا کردار اس مقصد تک محدود رہے گا۔
تاہم بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار حسن عسکری نے جمعے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس اتحاد کے مقاصد ابھی واضح ہونا باقی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ " اس کی مقاصد اور ایجنڈا بھی تک واضح نہیں ہیں اور یہ ابہام کسی بھی ایسی تنظیم کو غیر موثر کر سکتا ہے اور ابھی ہمیں یہ معلوم نہیں ہے کہ اتنی بڑی تنظیم کو کس طرح موثر بنایا جا سکے گا۔"
فوج کے ایک سابق لیفٹیننٹ جنرل اور دفاعی امور کے تجزیہ کار امجد شعیب کا کہنا ہے کہ اس اتحاد کا مقصد صرف انسداد دہشت گردی تک محدود ہے ۔
" اگر کوئی (اسلامی ملک) سمجھتا ہے کہ وہ اپنے طور پر انسداد دہشت گردی کے آپریشن پوری طرح نہیں کرسکتا ہے تو وہ درخواست کر سکتا ہے کہ اسلامی فورس اس کے ہاں بھیجیں تو وہ پھر وزرائے دفاع کی کونسل ہے وہ اس درخواست کا جائزہ لی گی۔ "
امجد شیعب نے مزید کہا کہ کسی ملک کی خلاف کارروائی کرنا اس کے اتحاد کے مقاصد میں شامل نہیں اور ان کے بقول اتوار کو ہونے والی کانفرنس کے بعد یہ مقاصد واضح ہو جائیں گے۔
دوسری طرف حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینٹر فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ پارلیمان کو اعتماد میں لیے بغیر پاکستان کا اس اتحاد سے متعلق کسی چیز پر اتفاق نہیں کرنا چاہیے۔
حسن عسکری کا کہنا ہے کہ آئینی طور پر ایسا کرنا ضروری نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ " پارلیمان خارجہ پالیسی پر بحث کر سکتی ہے، پارلیمان ایک قرارداد منظور کر سکتی ہے۔ کسی بھی معاملے سے متعلق مطالبہ کر سکتی ہے لیکن کسی بھی بین الاقوامی سمجھوتے کے لیے پاکستان آئین کے تحت پارلیمان کی منظوری ضروری نہیں ہے۔"
واضح رہے کہ 2015ء کے اواخر میں سعودی عرب نے 30 سے زائد اسلام ملکوں پر مشتمل ایک فوجی اتحاد قائم کرنے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد دہشت گردی اور شدت پسندی کے خطرے سے نمٹنا بتایا گیا ہے۔ تاہم اس میں سعودی عرب کا حریف ملک ایران اور بعض دیگر شعیہ اکثریت والے ملک شامل نہیں ہیں۔